مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بعد تحریک انصاف بھی الزام تراشی کی سیاست کا حصہ بن گئی

لاہور (شعیب الدین سے) الیکشن 2013ءنے ملک میں 90 ءکی دہائی کی سیاست واپس لوٹا دی ہے۔ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی تیسری قوت پی ٹی آئی کی قیادت بھی الزام تراشی کی اس سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ پارٹیوں کے سربراہوں پر جی بھر کر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے ”گھریلو معاملات“ بھی زیر بحث آ رہے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار پر قبضہ کی جو جنگ شروع ہوئی تھی اسی نے مسلسل 4 حکومتوں کو اپنا وقت پورا نہ کرنے دیا اور انجام جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاءکی شکل میں نکلا۔ بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت کے بعد امید بندھی تھی کہ دونوں پارٹیاں ”برداشت“ کی سیاست پر عمل کریں گی۔2008ءکے انتخابات میں الیکشن کے وقت پاکستان آمد اور پھر بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے معاملات ”ٹھنڈے“ رہے۔ وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بھی دونوں جماعتوں نے مل کر بنائیں مگر بھر جیسے جیسے وقت گزرا دونوں اپنی ”اصل“ کی طرف لوٹ گئے مگر ”مفاہمت کی سیاست“ نے پانچ سال بہرحال گزار لئے حکومتیں ختم ہوتے ہی اور انتخابی سیاست شروع ہوتے ہی کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کو اصل ناموں کی بجائے ”بہودگی“ سے پکارنے معاملات خراب کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت دہشت گردوں کے ”خوف“ سے کارنر میٹنگز تک محدود اور کھلے عام جلسے کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔ رحمان ملک نے اپنی آمد کے ساتھ ہی پریس کانفرنس میں ”آگ کے گولے“ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف پھینکے تھے۔ رحمن ملک نے پنجاب میں پریس کانفرنس اور رہنماو¿ں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا مگر پی پی کی حقیقی انتخابی مہم میڈیا کمپین تک محدود ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں پرانے سیاسی ورکرز کا کہنا ہے کہ ہماری قیادتیں کبھی سدھر نہیں سکتی ہیں ۔ جنہیں 10, 10 برس کی جلاوطنی نے کچھ نہیں سکھایا ان پر ”شیخ جی“ کا وعظ بھی بے اثر ہی رہے گا۔
الزام تراشی

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...