”ہاں! علیؓ ایسے ہی تھے“

جی این بھٹ
gnabibhat555@gmail.com
حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہ ؓ نے حکومت سنبھالی ایک روز انہوں نے بھرے دربار میں اچانک ایک عجیب سوال پوچھا ”کوئی ہے جو مجھے ابوالحسن (علی ابن ابی طالبؓ) کے بارے میں بتائے اور وہ بھی کھل کر“ پورے دربار میں سناٹا چھا گیا۔ سب حضرت علی ؓ و امیر معاویہؓ کی باہمی کشمکش اور اختلافات سے بخوبی آگاہ تھے۔ ایسے میں حاکم وقت کے سامنے اس کے مخالف کے بارے میں سچ کہنا اور وہ بھی جو خوبیوں سے آراستہ ہو بہت مشکل تھا۔
سب خاموش رہے، امیر معاویہؓ نے دوبارہ پوچھا کہ ہے کوئی جو مجھے ان کے بارے میں بتائے تو دربار میں موجود حضرت علیؓ کے ایک دیرینہ ساتھی ضرار بن ضمر اٹھے اور کہا کہ میں آپ کو سچ بتاتا ہوں سارے دربار پر سناٹا چھا گیا تو ضرار بن ضمر گویا ہوئے۔
”ان کو دنیا اور اس کی بہاروں اور رونق سے وحشت ہوتی تھی۔ ان کا دل رات کو اس کی تاریکی سے بہت بہلتا تھا، ان کی آنکھیں اشک بار رہا کرتی تھیں، وہ ہمیشہ ایک لمبے غور و فکر میں رہتے تھے۔ لباس وہ پسند تھا جو موٹا ہوتا، کھانا وہ پسند کرتے جو سادہ معمولی اور دل کو بھاتا وہ عام معمولی انسان کی طرح رہتے تھے۔ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں تھا جب ہم کچھ پوچھتے تو جواب دیتے، سلام کرنے میں پہل کرتے، جب ہم بلاتے تو بے تکلف چلے آتے، ان کے اس تقرب اور ہمارے اس قرب کے باوجود ان کا رعب اتنا تھا کہ ہم گفتگو میں پہل نہ کر پاتے۔ وہ خود بات چھیڑ کر گفتگو کا آغاز کرتے۔
دین والوں کی عزت کرتے، مسکینوں سے محبت کرتے، طاقتور کو ان سے کسی غلط چیز کی امید نہ ہوتی اور کمزور ان کے انصاف سے نا امید نہ ہوتا۔
خدا کی قسم میں نے کئی مرتبہ انہیں اس وقت دیکھا جب رات نے اپنے پردے ڈال دیئے ہوتے اور تارے ڈھل رہے ہوتے، وہ اپنی محراب میں اور کبھی بیت اللہ کے پردوں سے لپٹے اپنی داڑھی پکڑے کسی سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپتے اور اس طرح روتے تھے کہ جیسے ان کے دل پر چوٹ لگی ہو گویا میں سن رہا ہوں۔ کہہ رہے ہوتے ”اے دنیا“ اے دنیا! کیا مجھ سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے جا چلی جا میں تو کب کا تجھے چھوڑ چکا۔ کیوں تیری مجھ پر نظر ہے، کوئی امید نہ رکھ مجھ سے جا کسی اور کو فریب دے، میں نے تجھے ایسا چھوڑا ہے کہ کبھی تیرا نام بھی نہیں لوں گا، تیری عمر مختصر زندگی بے وقعت اور تیرا خطرہ بہت ہے۔ ہائے افسوس کہ سفر کا سامان بہت کم ہے، سفر کتنا طویل اور دور کا ہے اور راستہ کتنا وحشتناک ہے۔“
یہ سننا تھا کہ اہل دربار کے صبر و ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور ان کی نگاہوں کے سامنے شیر خداؓ کا سراپا آگیا ان کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھیگ گئیں اور کئی ہچکیاں لے کر رونے لگے۔ امیر معاویہ ؓ کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں اور انہوں نے گلوگیر رندھی ہوئی آواز میں ضرار بن ضمر سے مخاطب ہو کر کہا ”واللہ تم نے جو کہا سچ کہا بالکل سچ کہا، ابو تراب ایسے ہی تھے۔“
امیر المومنین خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ کو سرکار رسالت مآب سے باب العلم کا خطاب عطا ہوا۔ آپ کی رائے اور مشورے کو خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت عثمان غنیؓ ہمیشہ اولیت دیتے تھے اور کاروبار سلطنت میں آپ سے مشاورت لیتے تھے۔
سیدنا عمر فاروقؓ جب شام و فلسطین کی فتح کے موقع پر وہاں گئے تو اپنی جگہ انہوں نے آپ کو قائم مقام خلیفہ مقرر کیا۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد آپ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
آپ سرکار دو عالم کے چچا زاد بھائی بھی اور داماد بھی تھے، آپ سے نبی مکرم کو بے حد محبت تھی، بارہا زبان نبوت سے آپ کے بارے میں کلمات خیر ادا ہوئے۔ نبی کریم نے آپ کو مثل ہارون فرمایا۔ آپ کے خون کو اپنا خون کہا آپ امام الاولیاءہیں۔ تمام سلاسل تصوف ماسوائے چند ایک کے آپ ہی کے ذات والا صفات سے فیض پاتے تھے۔ تمام علما آپ ہی کے در سے علم و معرفت کا خط اٹھاتے ہیں۔
آپ کی ذات علم و عمل کی شجاعت و بلاغت کی بے مثل تصویر ہے۔ اگر آپ ایک طرف حیدر کرار ہیں تو دوسری طرف زھد و تقویٰ کا حسین شہ کار بھی ہیں۔ آپ قلم سے لے کر تلوار تک اور زھد سے لے کر خلافت تک کا زیب و زینت تھے۔ زندگی ایسی سادہ اور درویشانہ تھی کہ رسول خدا نے ”ابو تراب“ کے خوبصورت اعزاز سے نواز، قبل از خلافت عام مسلمانوں کی طرح دن بھر محنت مزدوری کر کے گھر کا خرچہ چلاتے، ساری رات کا بیشتر حصہ عبادت میں بسر کرتے۔
گھر بھی ملا تو ایسا کہ اس پر ملائکہ رشککرتے تھے۔ زوجہ سیدة النسا اہل جنت تھیں تو بیٹے بھی ایسے عالی شان و ذی وقار کہ جنت کے پھول اور جنت کے جوانوں کے سردار کہلائے۔ بیٹی ایسی کہ بھرے دربار میں بھی خوف چھو کر نہیں گزرا اور کلمہ حق ادا کیا بقول اعلیٰ حضرت
”تو ہے نور عین تیرا سب گھرانہ نور کا“

ای پیپر دی نیشن