کسی معاشرے میں تبدیلی کیلئے ہمیشہ ادب کی تمام تر اصناف‘ تہذیب کا بنیاد سے جڑت کا ادراک و اعادہ‘ سماجی محرومیوں نا انصافیوں پر بنیادی انسانی ضروریات کے بارے مثبت رویہ اس کیلئے مکالمے کا جذبہ و عمل اور جبر کے آواز میں تواتر و مضبوطی کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ عام آدمی کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے آگاہ کرنا دراصل آج کے جدید ترین دور میں بھی کار سہل نہیں۔ ہر طبقہ ہائے سوچ و فکر سے ہتھیار کے ناجائز استعمال کو غیر مہذب و غیر انسانی تسلیم کروانا ہی دراصل نارمل متوازی اور آسودہ معاشرے کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ سوچ و فکر کا مثبت دھارا حقیقی انسانی قدروں کی ڈھال ہو سکتا ہے اور پھر یہ شروعات رفتہ رفتہ تبدیلی کا موجب بھی بنتی ہے۔ انفرادی رائے اور اپنے حق کیلئے آواز ہمیشہ ہی اقتدار کی حامل قوتوں کے حلق کی پھانس رہی ہے۔ شاید ہی کوئی معاشرہ جبرو تشدد اور امتیاز و اختیار کے پھیلاﺅ کی حرص زدہ خواہشوں سے بچا ہو۔ کہیں گورے رنگ کی وجہ سے کالوں پر زندگی تنگ ہے تو کہیں مذہبی جنونیت اختلافی سوچ کا قتل عام کر رہی ہے اور کہیں علاقائی و لسانی تعصبات فضاﺅں کو زہر آلود ہی نہیں کر رہے بلکہ انسان کا دوسرے انسان سے رشتہ نفرت میں بدل رہے ہیں کون نہیں جانتا آج کے دو صنعتی عقاب چین اور جاپان ہنوز ایک سرد چپقلش سے دامن نہیں چھڑا سکے۔ اس لئے کہ چین کی خواہش ہے جاپان اپنے نصابوں کو درست کرتے ہوئے تسلیم کرے کہ اس نے گزرے وقتوں میں چین کے ساتھ انتہائی غیر انسانی ناروا سلوک کیا.... زیادتی کی!! لیکن جاپانی زبان سے اقرار کے باوجود تاریخ کے اوراق درست کرنے میں اپنی تہذیبی سبکی محسوس کرتا ہے۔ یہ تو دو الگ الگ تہذیبیں‘ زبانیں اور تاریخ رکھنے والے ملکوں کی بات ہے ہم تو ایک ہی خطے ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی ملک کے باسی ہیں۔ ہم ہمسائیوں کی صف میں نہیں بھائیوں کی برابری کے حق کے زمرے میں آتے ہیں۔ جانے کیوں ہم بین الصوبائی معاملات میں اس قدر ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ سچ کو سچ کہنے میں تعامل برت رہے ہیں۔ یہ شاید اس لئے کہ پھر آئیڈیلز کے چہرے مسخ ہوئے ہیں۔ ہم جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں حقیقی سچ کو مارتے چلے جا رہے ہیں لیکن سکون سے زندہ رہنے کیلئے تاریخ کیساتھ ساتھ نصاب درست کرنا مہنگا سودا نہیں کہیں ایسا نہ ہو ہم اپنے جغرافیے میں پھر کوئی تبدیلی کر بیٹھیں۔ ہم آخر کیوں دل سے تسلیم نہیں کرتے کہ ہر صوبے میں با اختیار لوگوں نے اپنے اپنے اٹھائی گیرے، کرائے کے قاتل اور سلف ڈیفنس کی آڑ میں ذاتی ملیشا بنا رکھے ہیں!! اصل مقصد اقتدار کی طوالت کیلئے بے اختیاروں میں اضافے اور سوچ کو گروی رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا چاہیے با اثر قوتیں تعلیم چھین کر کریں یا اناج چھین کر۔ یہ دونوں بنیادی محرومیاں سوچ کو بنجر کرنے کے مترادف ہیں۔ ہاں خال خال ہی کہیں یہ محرومیاں بغاوت کو جنم دیتی ہیں اور جب سوچ میں سرخ بگولے در آتے ہیں تو پھر قوت کے منبع آزاد سوچ اور بے خوف آواز کے دشمن ہوتے ہیں۔ آخر اس اعتراف میں کیا قباحت ہے کہ ہر صوبے میں سرمایہ داروں‘ جاگیر داروں اور وڈیروں کی اجارہ داری ہے اور اس کو قائم رکھنے کیلئے ابھرتی آوازوں میں دبانا یا پھرہمیشہ کیلئے خاموش کر دینے والا سفاکانہ رویہ ایک دہشت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ذہن و سوچ پر دباﺅ کو علاقائی تہذیب کا حصہ بنایا جانا اور عام آدمی کا اسے اپنی تقدیر گرداننے پر مائل کرنا دراصل بصارت و آگہی کا قتل عام ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کی حقیقی با اختیار قوتیں کچھ علاقوں میں دندناتے ہوئے ہوائی گولی بازوں کی حرکات و سکنات سے چشم پوشی کرتے اور کچھ کو غاروں میں جا کر داغ دیتے ہیں۔ کچھ کیلئے پورا میڈیا ہمہ وقت ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے حاضر ہو اورکچھ لوگوں کو اپنی آواز کیلئے انڈر گراﺅنڈ تنظیموں کی طرح سماجی رابطوں کے نیٹ ورک استعمال کرنے پڑیں۔ کچھ کی فرفراہٹ سے سماعتوں پر مسلسل جبر کیا جاتا ہو اور شعوری نا انصافی اور سوچ میں زہر کی فصل اگانے کے مترادف ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی دلخراش واقع کو ملک دشمن ایجنسیوں یا بیرونی قوتوں کا شاخسانہ قرار دے کر حقیقی کھوج و تحقیق کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے جاتے ہیں لیکن قوتوں کی زندگی میں یہ شارٹ ٹرم ٹریٹمنٹ کبھی کبھی ناسور بھی بن جاتا ہے۔ کیونکہ نشتر سے افضل مکالمہ آج کی مہذب دنیا کا بہترین اقرار ہے۔ اس میں شک نہیں خوف انسانی سوچ پر منفی اور مثبت دونوں اثرات رکھتا ہے۔ کبھی کبھی انتہائی خوف زدہ انسان دوسرے کی جان بھی لے لیتا ہے۔ اور کبھی کبھی انتہائی ڈپریشن میں اپنی جان کا بھی دشمن ہو جاتا ہے لیکن پہلا عمل ہراس کی فضا بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ دوسرے کی جان لینا انہی لوگوں کا امتیاز ہے جو ہراس پھیلانے اور مکالمے کو روک کر ہتھیار کی زبان کے استعمال کو فوری اور آسان حل سمجھتے ہیں ایسا ہی ایک آسان حل ”سوچ کی موت“ کی صورت 24 اپریل کو سبین محمود کو منوں مٹی تلے دفنا کر حاصل کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس کا جرم سوچ کو معنی دینے اور اسکے پھیلاﺅ کے سوا کچھ نہیں تھا وہ تبدیلی براستہ مکالمہ ادب، تہذیب اور آرٹ کی قائل تھی سبین محمود جبر کیخلاف اپنی مضبوط آواز کیلئے شعار سہولیات کی برابر نفی کرتی رہی۔ ایسی جوان نڈر آواز نے اپنے کیفے T2F میں سوچ کو اختلاف کے تمام تر راستوں پر گامزن ہونے کے باوجود اختلافی سوچ و فکر کی گفتگو اور مکالمے کی آفادیت پر مائل کیا۔ پیمرا کی چھتری کے نیچے روز خراخری آوازوں کے نقاروں پر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز مرنے نہ دی۔ میسنگ پرسنز پر ان سائیلسننگ بلوچستان پر .... قدیر بلوچ، فرزانہ بلوچ اور سید محمد تالپور کی گن گرج کی جگہ اس کی آواز کی طاقت آخر کسی کیلئے تو خطرہ تھی؟ وہ اپنے ”تھم پش“ سے پل بھر میں سوچ کی دنیا میں داخل ہوئی۔ ٹی وی میڈیا اس کیلئے بے معنی ہوتا جا رہا تھا کہ اس نے اپنی سوچ کے پھیلاﺅ کی راہیں نکال لی تھیں۔ اس نے ناانصافیوں کے سامنے کھڑا ہونا سیکھ لیا تھا بلکہ اب تو اسکی سوچ کی پنیری پھوٹنے لگی تھی اس کی کیاریوں میں کتنے ہی ہری بھری سوچ پودے سر اٹھانے لگے تھے۔ سوچ و فکر کے اظہار کا پلیٹ فارم پل بھر میں اکھاڑ پچھاڑ دینے والے شارٹ ٹرم ٹریٹمنٹ کرنے والے کہیں پھر تو غلطی نہیں کر رہے۔ انہوں نے صرف ابھی سبین محمود کو مارا ہے اس کی کیاریوں میں نئی کونپلیں ابھی باقی ہیں۔
سوچ کی موت
May 03, 2015