جب کسی شخص کو بخار ہو جائے تو ڈاکٹر حضرات تھرما میٹر کے ذریعے اس کا ٹمپریچر معلوم کرتے ہوئے دوا تجویز کرتے ہیں اور اگر بخار پانامہ کیس کی طرح طول پکڑ جائے تو اہلخانہ خود بھی ایک عدد تھرمامیٹر خرید لیتے ہیں اور وقفے وقفے سے مریض کے منہ میں لگا کر تھرمامیٹر کے پارے کا اتار چڑھاؤ معلوم کرتے رہتے ہیں۔ یہ تو ہم نے سنا ہے کہ ادب قوم کا سرمایہ ہوتا ہے۔ کسی نے کہا کہ اس لئے سرمایہ ہوتا ہے کہ اس میں ادیب کا سر استعمال ہوتا ہے اور مایہ پبلشر کے حصے میں آجاتی ہے۔ کبھی ہم نے یہ نہیں سنا کہ سیاست قوم کا سرمایہ ہوتی ہے۔ آج کل یہ سننے میں آرہا ہے کہ سیاست سیاست دانوں کا سرمایہ ہوتی ہے۔ آج کل ٹی وی چینلز کھولیں یا اخبارات دیکھیں تو ان پر تھرما میٹر کا گمان ہوتا ہے۔ سیاست کو ایک بخار کہا جائے تو حرج ہی کیا ہے۔ آج کل سب سیاست دان آپس میں ٹکرا چکے ہیں۔ سیاست میں فعل کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ جس طرح طلبہ برادری فعل حال‘ فعل ماضی اور فعل مستقبل کا شعور حاصل کرتے ہوئے انگریزی سیکھتی ہے‘ اسی طرح ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے فعل میں جھانک کر اس کے اندر سے کوئی اچھی یا بری نیت کا سراغ لگانے میں مشغول ہیں۔ ان سیاست دانوں کا بس نہیں چل رہا ورنہ نیت کا کھوج لگانے کی خاطر ایک دوسرے کا دل بھی چیر کر رکھ دیں۔ ان کے بیانات ایسے معلوم ہو رہے ہیں جیسے بیانات کی آرا مشینیں چل رہی ہیں ۔ عمران خان صاحب کی آج کل بیانات کی موبائل آرا مشینیں چل رہی ہیں۔ وہ خود نواز شریف صاحب سے ان کی کامیابی کے فوراً بعد ہی سے استعفیٰ رہے ہیں۔ اب انہوں نے پاکستانیوں سے بھی کہہ دیا ہے کہ نواز شریف صاحب سے استعفیٰ مانگ طلب کریں۔ کراچی میں کراچی حقوق مارچ کے سلسلے میں تبدیلی بس تیار کی گئی اور ایک تبدیلی ٹرک بھی جس پر قائد کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔ کراچی میں عوام کو صرف تبدیلی بس کا نعرہ سنایا جا رہا ہے۔ ادھر لاہور میں سرخ سرخ رنگ کی سپیڈ بسیں تبدیلی لا چکی ہیں۔ ہر بس پر ہمارے دل عزیز جناب شہباز شریف کی تصویر نظر آتی ہے بچے والدین سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا شہباز شریف صاحب ان بسوں کے مالک ہیں؟ شہباز شریف صاحب عمران خان کو نیازی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بسوں کا کاروبار نیازیوں اور وڑائچوں کے ہاتھ رہا ہے۔ ہم بچپن سے نیازی طیاروں اور وڑائچ طیاروں پر سفر کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے گو نواز گو کے نعرے لگوائے۔ جب گزشتہ الیکشن ہوئے تو پاکستانیوں نے کم نواز کم کہا۔ عمران خان صاحب نے الیکشن کے فوراً بعد ہی اعلان کیا کہ میں قوم سے ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ضروری بات کہہ دی ’’گو نواز گو‘‘ اس ضروری بات کا محبوب اور مجرب نعرہ اب بھی لگوا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب یہ نعرہ لگوا رہے تھے کہ ڈیزل ڈیزل کا نعرہ بھی لگنے لگا۔ انہوں نے فوراً کہا اصل نعرہ تو ’’گو نواز گو‘‘ ہے۔ اس سے دل و دماغ کو ایک سرور سا ملتا ہے بلکہ کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے۔
’’ڈیزل ڈیزل‘‘ کے نعرے کی یہاں ضرورت ہی نہیں۔ آج کل ویسے بھی گرمی ہے اور یہ نعرہ ایک آگ سی لگا دیتا ہے۔ انہوں نے آصف زرداری صاحب کے چہرے کو خوفناک کہا اور نواز شریف صاحب کو معصوم اور پپو کہہ دیا جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔ عموماً رکشوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ اب لوگ یہ سمجھیں گے کہ پاکستان میں جتنے رکشے چل رہے ہیں۔ یہ عمران خان صاحب کے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا شیر اوکاڑے میں جا کر گرجا ہے۔ نواز شریف صاحب نے کہا کہ ہر بات پر استعفیٰ مانگتے ہو۔ جاؤ جا کر کرکٹ کھیلو۔ نہ تم ملک چلا سکتے ہو اور نہ سیاست کرنا تمہارے بس کی بات ہے۔ ہم نے کرکٹ بھی کھیلی ہے اور ملک بھی چلا رہے ہیں۔ ہم سڑکیں بناتے رہیں گے‘ تم سڑکیں ناپتے رہو گے۔ تمہارے نصیب میں احتجاج لکھا ہے اور ہمارے نصیب میں خدمت لکھی ہے۔ نواز شریف صاحب وزیراعظم ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جاؤ جا کر کوئی شریفانہ کام کرو۔ چوں کہ وہ خود شریفانہ کام کر رہے ہیں؟ اس لئے انہوں نے عمران خان کو سیاست میں طفل مکتب کہا اور انہیں ان کا اصل پیشہ یاد دلایا۔ عمران خان نے جواب دیا۔ اب میں کرکٹ کھیلنے کی عمر سے کئی میل بڑھ چکا ہوں۔ اب میں سیاست ہی کھیلوں گا۔ شکر ہے کہ نواز شریف صاحب نے یہ نہیں کہا کہ ’’عمران بھیا! جا کر رکشہ چلاؤ۔ جس نے وزیراعظم کو ستایا‘ اس نے رکشہ ہی چلایا۔‘‘ اگلے کسی جلسے میں عمران خان نواز شریف صاحب کو گھر بھیجنے کے لئے آفر کریں گے۔ آپ وزیراعظم ہاؤس چھوڑ دیں‘ رکشے کا کرایہ مجھ سے لے لیں۔
زرداری صاحب نے کے پی کے میں تیر چلایا ہے کہ عمران خان کو پشتو نہیں آتی۔ یہ جعلی خان ہے انہوں نے عمران خان کو جنرل نیازی سے جاملایا ہے۔ انہوں نواز شریف صاحب کی کرپشن پر بھی تنقید کی۔ سہیل احمد المعروف عزیزی نے زرداری صاحب پر جملہ سجایا۔ ’’زرداری صاحب تہاڈے منوؤں کرپشن دی گل چنکی نئیں لگدی‘‘ (آپ کے منہ سے کرپشن کی بات اچھی نہیں لگتی عمران خان صاحب نے زرداری صاحب کی کرپشن کے خلاف باتیں سن کر صرف یہ کہا ہے کہ زرداری صاحب کا ایسا کہنا قیامت کی نشانی ہے۔ غریب اب بھی مجبور ہے لاچار ہے‘ بے روزگار ہے‘ چھوٹے ملازموں اور دفتری ملازموں کی حالت زار پوچھیں تو رونا آتا ہے۔ غریب بیمار ہو جائے تو وہ ہسپتال پہنچنے کے لئے کوئی سواری افورڈ نہیں کر سکتا۔ ہماری مذہبی جماعتیں بھی تو لوگوں سے یہی کہتی ہیں کہ اگلے جہان بہت سکون ملے گا۔ کالا باغ ڈیم کی بات کسی سیاست دان کے منشور میں نہیں۔ سیاست دانوں کو عوام کے لئے اس جہان میں سکون دینے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ سیاسی ٹمریچر کو اتنا نہ بڑھائیں کہ کہیں تیسری قوت میرے عزیز ہم وطنو! کہہ کر ملک کو چلانا شروع نہ کر دے۔