سیاستدانوں کو محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے

پانامالیکس کے تفصیلی فیصلے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی واقع ہوگی لیکن تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرکے اگلے چند روز کا سیاسی منظر نامہ سامنے رکھ دیا ہے۔ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ لارجر بنچ کے دو سینئر ججوں کی طرف سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی قانونی حیثیت دیگر تین ججوں کے اکثریتی فیصلے کے باعث موثر نہیں تاہم وزیراعظم کو اخلاقی بنیاد پر اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم اپنے خلاف کی جانے والی تحقیقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں لہذا جے آئی ٹی کو مکمل آزادی اور شفافیت کے ساتھ کام کا موقع دینے کے لئے وزیراعظم مستعفی ہوں۔ وزیراعظم کو مستعفی کرانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر جلسوں میں ان کے خلاف انتہائی نازیبا بیان کا بھی استعمال کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی وزیراعظم کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے بہت بددیانتی کی اب ہماری ضرورت پڑی بھی تو میں ان کا فون نہیں اٹھائوں گا اب وزیراعظم سے نجات حاصل کرنا ہی ہوگی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو کے ساتھ مشاورتی اجلاس میں نئی سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ حکومت کو اس کی آئینی مدت نہ پوری کرنے دی جائے اور اسی سال قبل از وقت الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے دبائو بڑھایا جائے۔ چار سال کی فرینڈلی اپوزیشن کرنے کے بعد اب پی پی پی کی قیادت کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ان کے ساتھ بددیانتی کی گئی بدعہدی ہوئی اور سابق صدر جو خود کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ آئندہ کبھی مسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف کا ساتھ نہیں دیں گے۔ وقت نے یہ بات ثابت کی ہے کہ2013ء سے اب تک اگر ملک میں حقیقی اپوزیشن کا کردار کسی نے ادا کیا ہے تو پاکستان تحریک انصاف ہی ہے جس نے تمام اہم امور پر حکومت کو کڑا وقت دکھایا ہے اور دھرنے دئیے پاناما کیس میں بھی بیرون ملک سے دستاویزات لانے اور اس کیس کو عوام کی عدالت میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ نوازشریف ان کے ساتھی اور پارٹی کارکناں خوش ہیں کہ ان کی حکومت فوری طور ختم کرنے والا فیصلہ نہیں ہوا۔ ادھر ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان بھی مطمئن ہیں کہ ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک وزیراعظم ان کے خاندان کی مبینہ کرپشن کے معاملات تفصیل کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عمران خان اگرچہ شریف خاندان کے خلاف خود کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے لیکن عدالت عظمیٰ کے منقسم فیصلے کو اپنی فتح قرار دے کر انہوں نے میاں نوازشریف سے اخلاقی بنیاد پر وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی جانب سے یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے 2013ء کے انتخابات میں انہیں یقین تھا کہ وہ اکثریت حاصل کرکے ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے لیکن میاں نوازشریف کے یہ عہدہ سنبھالنے پر عمران خان کی حالت دیدنی تھی۔ انہوںنے پچھلے چار برسوں میں وزیراعظم نوازشریف کوہٹانے کے تمام حربے آزماکردیکھ لیے لیکن الیکشن کمیشن اور عدالتوں سمیت ہر جگہ انہیں ناکامی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا جو حکم جاری کیا اس کی رپورٹ آنے اور سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک موجودہ حکومت کی مدت ویسے ہی ختم ہونے کے قریب ہوگی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کا تعلق اگر پاکستان سے ہے اور وہ یہیں سیاست کے کھیل میں مصروف ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک میں اخلاقی جواز کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بس قانونی جواز کافی ہے اوراگر کی کے پیچھے عوام کی اکثریت بھی ہوتو علامہ اقبال کی زبان میں جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو صرف گنا جاتا ہے تولانہیں جاتا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے اگر کوئی شخصیت اور پارٹی ناراض ہے تو وہ آصف علی زرداری اور ان کی جماعت ہے وہ فوج کے خلاف زبانی محاذ آرائی کے بعد اب عدالت عظمیٰ پر گرجتے برستے نظر آتے ہیں، حالانکہ پانامہ لیکس کے مقدمے میں پیپلزپارٹی یا اس کے چیئرمین سرے سے فریق ہی نہ تھے۔ ملک میں عدلیہ اورفوج ہی ایسے دو ادارہے ہیں جو بساط بھر عوام کی توقعات پر پورے اترتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی ان دونوں کی اس لیے مخالف ہے کہ ان پر اس کا کوئی زور نہیں چلتا۔ ان کی وجہ سے پارٹی کے چور اچکے لٹیرے قاتل اور ہر طرح کی کرپشن میں اوپر سے نیچے تک ملوث کسی فرد کو کہیں جائے فرار میسر نہیں ہے۔ موجودہ عدالتی فیصلے کے تحت شریف خاندان کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے اپنے اثاثوں کی ملکیت اور ان کے لئے حاصل کی جانے والی رقوم کے ذرائع پیش کرے اور حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کو بھی ڈیڑھ ماہ کی مدت میں نمٹانا ہوگا۔ پاناما کیس کی طویل سماعت اور فیصلے کو بچپن روز تک محفوظ رکھنے کی وجہ سے عوام نے یہ توقعات وابستہ کررکھی تھیں کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے اس بار تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر رہے گا لیکن افسوس کہ فیصلہ ہنوز معلق ہے اور عوام کا مستقبل بھی حسب سابق سولی پر لٹکا ہواہے۔ تاہم امید کی جانی چاہیے کہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس کو مدنظر رکھ کر عدلیہ عوامی توقعات کے عین مطابق فیصلہ سنائے گی۔ حزب اختلاف کی کئی جماعتیں حکومت کے خلاف نئی صف بندی کررہی ہیں۔ فی الحال توبیانات کا مقابلہ چل رہا ہے۔ حزب اختلاف کی طرف سے جو کچھ کہا جاتا ہے نوا زشریف کے حواری اس کا ترنت جواب دیتے ہیں جو کبھی کبھی شائستگی کے دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ لیکن ’’عوامی رہنمائوں‘‘ کی یہ روش نئی نہیں ہے اور یہ زبان درازیاں اوپر سے نیچے تک جاری ہیں۔ اس معاملے میں نہ عمران خان کسی سے پیچھے ہیں اور نہ نوازشریف کے ترجمان سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کو ہٹانے کی کوشش کرتی ہی ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کو بھی اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کیا ایک خاندان کا اقتدار بچانے کے لئے پورے جمہوری نظام کو خطرے میں ڈالنا درست ہے؟ وزیراعظم نوازشریف پانامہ لیکس معاملے سے محفوظ نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد کوئی بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دو ماہ بعد پھر وہی نعرے، الزامات لوٹ آئیں۔ ایک بار پھر عدلیہ پر دبائو ہوگا۔ وزیراعظم کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ استعفیٰ دیں لیکن وزیراعظم خود بھی تو کچھ سوچتے ہوں گے جہاں تک اپوزیشن کے مطالبہ کی بات ہے تو اس معاملے کو نتیجہ خیر بنانے کے لئے ایک طویل سیاسی شراکت کی ضرورت ہے جس کا حوصلہ اپوزیشن جماعتوں میں دکھائی نہیں دیتا۔ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے سے قبل انہیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ وہ جو مطالبہ کررہے ہیں کیا اسے منوابھی سکتے ہیں؟اور منوانے کے بنیادی لوازمات سے واقف ہیں۔

ای پیپر دی نیشن