سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کےلئے سٹیٹ بینک اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے بھجوائے گئے ناموں کومسترد کرتے ہوئے گور نر سٹیٹ بینک اور چیئر مین ایس ای سی پی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر کے گریڈ 18اور اس سے اوپر کے تمام افسران کی فہرست پیش کر نے کی ہدایت کی ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پانامہ کیس فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے بنائے گئے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے سماعت کی۔جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی خصوصی بنچ کا حصہ ہیں۔سماعت کے دوران بینچ نے سٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے بھجوائے گئے ناموں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایس ای سی پی کو عدالت میں طلب کرلیا۔عدالت عظمیٰ نے کہا بھیجے گئے افسران کے نام غیر جانبدار نہیں، ساتھ ہی عدالت نے دونوں اداروں کو ہدایت کی گریڈ 18 اور اس سے اوپر کے تمام افسران کی لسٹ ساتھ لے کر آئیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات چاہتے ہیں ۔ چاہتے ہیں جے آئی ٹی میں ایسے لوگ ہوں جوایماندار اور اپنے کام میں مہارت رکھتے ہوں۔انہوں نے کہا کہ گورنرسٹیٹ بینک ,چیئرمین ایس ای سی پی نے جونام بھجوائے وہ شک و شبہ سے بالا نہیں ,ایسے افراد چاہئیں جن کا کردار ہیرے جیسا ہو۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلیں۔ہم خود ان افسران کو سلیکٹ کریں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم کوئی عذراور تاخیر برادشت نہیں کریں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت جمعہ ساڑھے 11 بجے تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔گزشتہ روز ہی سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا۔خصوصی بینچ پانامہ کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی نے کہا سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی سے گریڈ 18 اور اس سے اوپر کے افسران کی فہرست طلب کی ہے کوئی نام مسترد نہیں کیا گیا۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا عدالت کا پہلے دن یہ حکم تھا کہ ان کی منظوری سے سارے لوگ لگائے جائیں گے۔ یہ عدالت کی صوابدید ہے۔ عدالت نے گورنر سٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی چیئرمین سے گریڈ 18 اور اس سے اوپر کے افسران کی فہرست مانگی ہے اس میں کوئی اچنبے ولی بات نہیں۔ان کاکہنا تھاکوئی نام مسترد نہیں ہوئے یہ کہا ہے کہ ہمیں اور فہرست چاہیے ہم اپنی مرضی سے لوگ لگائیں گے اور یہ صرف دو محکموں کے بارے میں کہا ہے ان کا کہناتھا کہ کوئی تناﺅ والی بات نہیں۔