اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے دوہری شہریت پر نااہل ارکان کیخلاف فوجداری مقدمات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ دوہری شہریت میں نااہل ہونے والے سابق اراکین پارلیمان پانچ پانچ لاکھ روپے پارلیمنٹ میں جمع کرائیں۔ دوہری شہریت پر نااہل ہونے والے اراکین سے تنخواہوں مراعات کی واپسی کے لئے متفرق درخواست دائر کردی گئی۔ بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دوہری شہریت کیس میں فیصلہ کے خلاف
اپیلوں کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ دوہری شہریت کے معاملہ کو پہلے ہی ٹیک اپ کر چکے ہیں۔ کیا اب آپ کے کیس کی اہمیت باقی ہے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کا حامل رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا، اس دوران نااہل ارکان کے وکیل کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کے حامل ارکان نے استعفے بھی دیئے، ہمارا موقف ہے کہ نااہل ہونے والے اراکین سے تنخواہ اور مراعات واپس نہ لی جائیں۔ درخواست گزار نے موقف اپنایاکہ عدالت نے شہناز شیخ کے استعفیٰ کو قبول نہیں کیا بلکہ انہیں نااہل کیا 2012 ءمیں عدالت نے نااہل قرار دے کر مراعات اور تنخواہیں واپس لینے کا حکم بھی دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا تنخواہیں اور مراعات کے واپس کرنے کا عدالتی حکم فائنل ہو چکا ہے؟ اور کیا عدالت نے تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم دیا؟ تو نااہل ارکان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ پر نااہل ارکان نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کیں۔ درخواست گزار نے آگاہ کیاکہ نااہل ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی عدالت میں چل رہے ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے ڈاکٹر محمد علی شاہ کی نظرثانی درخواست خارج کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ وقفہ کے بعد دوہری شہریت کیس سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ نااہل ارکان کیخلاف فوجداری کارروائی کے حکم میں ترمیم کر رہے ہیں تاہم تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم برقرار رہے گا، اس دوران وکیل وسیم سجاد نے کہاکہ نااہل ارکان نے اسمبلی اجلاس میں شرکت کی، نوازشریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا لیکن تنخواہ اور مراعات واپس کرنے کا حکم نہیں دیا، چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف کے مقدمے میں تنخواہیں اور مراعات واپسی کا معاملہ زیر غور نہیں آیا، وکیل نے کہا کہ عدالت انسانی بنیادوں پر اس معاملے کو دیکھے، چیف جسٹس نے کہا کہ تنخواہوں مراعات کی ادائیگی میں انسانی بنیاد کا معاملہ کدھر سے آگیا؟ سابق رکن اسمبلی شہناز شیخ نے موقف اپنایا کہ انہوں نے اسمبلی کے بزنس میں حصہ لیا، اٹھارویں ترمیم کو ووٹ دیا، بعد ازاں فوجداری کیس میں ڈیڑھ سال بعد ضمانت ہوئی اس لئے مراعات اور تنخواہ واپس کرنا برداشت نہیں کر سکتی، عدالت نے استعفے دینے والوں سے تنخواہ اور مراعات واپس کرنے کا حکم نہیں دیا، شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ میری ذات پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ یہ کرپشن کا کیس نہیں ہے، چیف جسٹس نے سوال کیاکہ دوہری شہریت کے حامل کن ارکان نے استعفے دے دیئے تھے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت میں نااہل ہونے والوں میں تاحال کسی سے ریکوری نہیں ہوئی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر عدالتی اصول طے ہو گیا تو ریکوری ہونی چاہیے تھی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دوہری شہریت چھوڑنے کا تحریری جواب عدالت میںجمع کرایا ہے، وزیراعلیٰ سندھ کا موقف ہے کہ استعفے کے بعد انکے کیخلاف مقدمہ غیر موثر ہوگیا، اس دوران وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سابق رکن اسمبلی دونیا عزیز پر دوہری شہریت کے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ قانون میں دوہری شہریت حاصل کرنے کا ذکر نہیں دونیا عزیز نے دوہری شہریت حاصل نہیں کی بلکہ خود بخود ملی۔ دونیا عزیز کو نااہل نہیں کیا گیا انکا معاملہ عدالتی تشریح کا ہے۔ دوہری شہریت والے کیس میں کوئی رکن اسمبلی غریب نہیں، اس دوران درخواست گزار محمود اختر نقوی نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے محمود اختر نقوی سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ زمانہ گیا جب آپکا طوطی بولتا تھا، بلاوجہ اور بغیر اجازت بولنے کی کوشش نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوہری شہریت والوں سے پانچ پانچ لاکھ روپے کی ریکوری کر لیتے ہیں۔ شہناز شیخ نے بتایا کہ ایک کروڑ پچیس لاکھ ریکورکیے جا رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ چھ ماہ میں سابق ارکان پانچ پانچ لاکھ روپے جمع کرائیں، عدالت نے دوہری شہریت پر نااہل ارکان کیخلاف فوجداری مقدمات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ دوہری شہریت میں نااہل ہونے والے سابق ارکان پارلیمان پانچ‘ پانچ لاکھ روپے پارلیمنٹ میں جمع کرائیں۔ دریں اثناءدرخواست گزار محمود اختر نقوی کی جانب سے متفرق دائر درخواست میں دوہری شہریت کیس میں نااہل ہونے والے 13 ارکان اسمبلی اور سیکرٹری داخلہ کو فریق بنایا گیا۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ نااہل ہونے والے ارکان نے دوہری شہریت چھپائی۔ نااہل ارکان نے پارلیمنٹ کو دھوکہ دیا اور قوم سے جھوٹ بولااس لئے استدعا ہے کہ تمام نااہل ارکان سے تنخواہیں اور مراعات واپس لی جائیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خبردار کیا ہے کہ شوگر ملز کے مالکان نے کسانوں کو ادائیگیاں نہ کیں تو ملز بند کر کے کنٹرول سنبھال لیں گے۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں شوگرملز کی جانب سے کسانوں کو گنے کی قیمت کی عدم ادائیگی کیسز کی سماعت ہوئی۔ پتوکی بابا فرید اور دریا خان شوگر ملز کے مالکان عدالت میں پیش ہوئے۔ کاشت کاروں نے کہا کہ مردان شوگر ملز کا مالک 180 روپے فی من قیمت دینے کو تیار نہیں اور کہتا ہے کہ اگر اس نے 180 روپے قیمت دے دی تو وہ مرد کا بچہ نہیں ہوگا، مردان شوگر ملز کا کاشتکاروں کے ساتھ 150 روپے فی من کا معاہدہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مردان شوگر ملز کے مالک کو بلا لیتے ہیں، معاہدہ بھی دیکھ لیں گے، سرکاری ریٹ کا فیصلہ بعد میں کریں گے، فی الحال ملز مالکان 180 کے ریٹ سے ادائیگیاں کریں، گزشتہ کئی سال کی عدم ادائیگی کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، ممکن ہے سیشن ججز سے بھی معاملے کی انکوائری بھی کروا لیں۔عدالت نے پتوکی بابا فرید اور دریا خان شوگر ملز کے مالکان سے ادائیگیوں کا بیان حلفی طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ پتوکی شوگر ملز کب کسانوں کو ادائیگی کرےگی؟۔ وکیل پتوکی مل نے کہا کہ دو ماہ میں ادائیگی کر دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ادائیگی نہ ہوئی تو مل بند کر کے کنٹرول سنبھال لیں گے، 8 ہفتہ میں ادائیگی کو یقینی بنائیں، اب تک ہونے والی ادائیگی کا بیان حلفی دیں، تمام ادائیگی سرکاری ریٹ کے مطابق کی جائے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ عدالت کی کوشش ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو،بعض افراد کو سکیورٹی فراہم کرنا قانونی تقاضا ہے عدالت نے غیر متعلقہ لوگوں کو سکیورٹی دینے سے منع کیا تھا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے غیر متعلقہ افراد کوسکیورٹی دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آئی جی صاحب آپ صبح سے عدالت میں ہیںآپ کے یہاں ہونے سے پنجاب میں کام رک گیا ہو گا۔بعض افراد کو سکیورٹی فراہم کرنا قانونی تقاضا ہے عدالت نے غیر متعلقہ لوگوں کو سکیورٹی دینے سے منع کیا تھا،سیکورٹی امام بارگاہ اور مساجد کے لیے بھی ضروری ہے۔جن کو خطرات لاحق ہیں ان کو سکیورٹی ضرور فراہم کریں۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ضلعی سطح پرانٹیلی جنس کمیٹیاں قائم ہیںضلعی کمیٹیاں سکیورٹی فراہم کرنے کی سفارش کررہی ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ عدالت کی کوشش ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو۔اگر کوئی شکایت ملی تو کارروائی کریں گے،عدالت نے صحافی حذیفہ رحمان سے سکیورٹی واپس لینے کی ہدایت کر دی۔ دریں اثناءسپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کیخلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں۔ قومی ائیرلائن نجکاری کیس میں پی آئی اے نے فرانزک آڈٹ کرایا سب کچھ معلوم ہوگیا کب کس نے پی آئی اے کو کھایا، ملک کو بے دردی سے نقصان پہنچایا گیا ہے۔ مقدمے کی آئندہ تاریخوں میں تمام سابق سربراہ پیش ہونگے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزارنے موقف اپنایا کہ نوازشریف نے بطور وزیر اعظم ڈی جی سول ایوی ایشن کی تقرری ضابطوں کے بر خلاف کی۔ عدالت نے ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی کے خلاف دائردرخواست غیر موثر ہونے پر خارج کردی۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے شکر پڑیاں میں کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر اور درختوں کی کٹائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین پی سی بی ، چیئرمین سی ڈی اے اور سیکرٹری کیڈ کو طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شکر پڑیاں میں درخت نہ کاٹے جائیں، ہو جائے گا کرلیں گے والی سوچ اب نہیں چلے گی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے شکرپڑیاں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کے خلاف درخواست کی سماعت کی درخواست گزار سابق بیوروکریٹ روئیداد خان نے درخواست میں موقف اپنایا کہ شکرپڑیاں جنگل میں کثیر تعداد میں مختلف اداروں کے دفاتر قائم کردئیے گئے ہیں جو کہ نیشنل پارک کی خلاف ورزی میں شمار ہوتا ہے ، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ 35 ایکڑ رقبہ سٹیڈیم بنانے کیلئے مختص کیا جارہا ہے، عدالت نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی سے بھی جواب طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں شہری سید محمود نقوی کی جابن سے وزیر داخلہ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت جبکہ خواجہ آصف سے مراعات اور تنخواہ واپس لینے ، کے الیکٹرک کی نجکاری کیخلاف اورنااہل پارلیمنٹیرینز سے تنخواہوںاور واجبات کی واپسی کے لئے چار متفرق درخواستیں دائر کردی گئیں۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کی درخواست میں موقف اختےار کےا گےا ہے کہ احسن اقبال نے اپنے بیان میں چیف جسٹس کی توہین کی۔ احسن اقبال کو آئین کے آئین کے آرٹیکل62-63 کے تحت نااہل قراردیا جائے۔احسن اقبال سے 2008-2108 ءتک وصول کی گی تمام مراعات اور تنخواہ واپس لی جائے۔ دوسری درخواست سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کی نجکاری کے خلاف دائرکی گئی ہے، دائردرخواست میں وزیراعظم کو بذریعہ سیکرٹری اور صدر کو بزریعہ پرنسپل سیکرٹری فریق بنایا گیا ہے جبکہ وزارت پانی وبجلی، وزارت نجکاری۔کے الیکڑک کو بھی فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں موقف اختےارکےا گےا ہے کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کو ختم کرنا قومی مفاد میں ہے۔کے الیکٹرک کی نجکاری سے کراچی کے گھریلو اور کاروباری صارفین کو تکلیف کا سامنا ہے،کے الیکٹرک نے گیس کے 80 ارب کے واجبات بھی ادا نہیں کیے۔نجکاری ملی بھگت سے ہوئی جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نجکاری کو ختم کر کے کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیا جائے، جبکہ کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ فوری ختم کی جائے۔ تیسری درخواست میںسپریم کورٹ سے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف سے تنخواہ اور مراعات واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف کو 62/1 ایف کے تحت نااہل قرار دیا،خواجہ آصف کا نامای سی ایل میں شامل کر تمام تنخواہیں اور مراعات واپس لی جائیں،خواجہ آصف کی کسی سرکاری ادارے اور غیر سرکاری ادارے میں تقریر پر پابندی عائد کی جائے۔چوتھی درخواست میں دہری شہریت پر ناہل ہونے والوں سے تنخواہیں اور مراعات واپس لینے کے لئے دائر کی گی ہے ، درخواست میں ناہل پالیمنٹرین کو تاحےات ناہل قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں غیر قانونی شادی ہالز سے متعلق از خود نوٹس کیس کے دوران عدالت نے وفاقی محتسب رپورٹ کے خلاف اعتراضات گزشتہ رات تک جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ شادی ہالز کی ویسٹ کیلئے قانون میں کیا بندوبست کیا گیا ہے؟۔ شادی فنکشنز کے فضلے کو کہاں ٹھکانے لگایا جاتا ہے، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شادی ہالز کی ریگولیشن میں فضلہ اور سیوریج سے متعلق قواعد موجود ہیں، شادی ہالز فضلہ اور سیوریج کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست کرنے کے پابند ہوں گے۔ سماعت کے موقع پر شادی ہالز مالکان کے وکیل نے عدالت سے شادی ہالز کو اعتراضات دائر کرنے کا موقع دئیے جانے کی استدعا کی جو چیف جسٹس نے استدعا منظور کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ وفاقی محتسب رپورٹ کے خلاف جس نے اعتراضات دینے ہیں رات تک جمع کروا دے جس کے بعد کسی کا اعتراض قبول نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ