قومی اسمبلی : خواتین کیخلاف مسلم لیگی وزرا کے نامناسب الفاظ پر متفقہ مذمتی قرارداد

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) خواتین کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنے پر قومی ا سمبلی نے بدھ کی شام حکمراں جماعت کے دو وزراءکا نام شامل کئے بغیر ان کے خلاف متفقہ طور پر قرار داد مذمت منظور کر لی ہے۔ بعض ارکان نے ان وزراءکے استعفوں کا مطالبہ کیا جب کہ دیگر ارکان نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین کارکن سب کیلئے قابل احترام ہیں ۔تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے یہ قرار داد ایوان میں پیش کی۔ انہوں نے قرارداد کے متن میں پنجاب کے قانون پنجاب رانا ثناءاللہ اور وزیر مملکت عابد شیر علی کے نام شامل کیے گئے تھے تاہم سپیکر سردار ایاز صادق کی نشاندہی پر دونوں نام متن سے خارج کر دئے گئے۔ایوان زیریں میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ خواتین کے خلاف نازیبا زبان کے استعمال سے ہر ماں ، بہن اور بیٹی والے کو دلی تکلیف پہنچی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اس موقع پر سپیکر سردار ایاز صادق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواتین ہی ہماری، ماں بہن اور بیٹیاں ہوتی ہیں۔ سب کا احترام کیا جانا چاہیے اور میں خود بھی قابل اعتراض زبان کے استعمال کی مذمت کرتا ہوں ۔ تحریک انصاف ایم این اے اور قرار داد کی محرک ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہم سب شرفاءہیں۔ عابد شیر علی نے گٹروالی زبان استعمال کی، ایک گٹر سے آنے والا شخص ہی ایسی زبان استعمال کرسکتا ہے، عابد شیر علی اور رانا ثناءاللہ کو اسی زبان میں جواب دے سکتے ہیں، ہمارے صبر کو زیادہ نہ آزمایا جائے، یہ زبان استعال کرنے والے وزراءایوان میں معافی مانگیں۔ پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ خواتین کی حوصلہ شکنی اور استحصال ہو رہا ہے۔ سپیکر کا اس حوالے سے بیان حوصلہ افزا ہے۔ عورت نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی بن کر اپنی ذمہ داری ہمیشہ بہادری سے نبھائی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے فوری کارروائی کریں ۔ انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی میں واقعہ ہوا تو صوبائی وزیر کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ اگر خواتین کی باہر عزت نہیں ہوگی تو ارکان پارلیمنٹ کی بھی کوئی عزت نہیں کرے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے رانا ثناءاللہ کے بیان پر معذرت کی اس کے بعد ہمیں دل صاف کرتے ہوئے ایسے الفاظ کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی کی رکن عائشہ سید نے کہا کہ عورت کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔
قومی اسمبلی قرارداد
لاہور/ اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ کلچرل رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار+ سپورٹس رپورٹر+سپیشل رپورٹر+ اے پی پی) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے خواتین کے بارے میں (صفحہ 6بقیہ 22)
ریمارکس پر اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ سے معافی مانگنے اور بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ،پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے کہاکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو احتجاج جاری رکھیں گے، وقفہ سوالات کے دوران ہی حکومتی رکن وحید گل نے کورم کی نشاندہی کردی جس سے اجلاس کی کارروائی آگے نہ چل سکی، سپیکر نے اجلاس جمعرات صبح 10بجے تک ملتوی کردیا، پی ٹی آئی کے رکن خرم شیخ وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری فقیر حسین ڈوگر کو طنز کرتے رہے، رانا لیاقت کے جواب دینے پر مشتعل ہو کر غیر پارلیمانی زبان کا استعمال شروع کردیا سپیکر نے الفاظ حذف کرا دیئے۔ اجلاس ایک گھنٹہ40منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ دو محکموں خوراک اور جیل خانہ جات کے بارے میں سوالوں کے جوابات دیئے گئے۔ اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ وزیر قانون رانا ثناءنے ہماری خواتین پر غلط قسم کے ریمارکس دیئے جس سے نہ صرف ہمارا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوا ہم سب ماو¿ں بہنوں اور بیٹیوں والے ہیں، وہ آئے روز اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرتے رہتے ہیں، ختم بنوت کا مسئلہ ہو یا سانحہ ماڈل ٹاو¿ن ہو وہ اس قسم کی بے ہودہ گفتگو کرتے رہتے ہیں، ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ ایوان میں آکر اپنے الفاظ واپس لیں اور معذرت کریں اور ہمیں ان کے بیان پر جمع کرائی گئی مذمتی قرارداد آو¿ٹ آف ٹرن پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ شہباز شریف یا ترجمان حکومت کی معذرت ہمیں قابل قبول نہیں۔ صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ ہم اپوزیشن لیڈر کی تائید کرتے ہیں کہ خواتین ہم سب کے لئے محترم ہیں اور ہونی بھی چاہیے لیکن جس واقعہ کی بات اپوزیشن لیڈر کررہے ہیں وہ اسمبلی کے ایوان میں نہیں ہوا باہر ہوا ہے یہ ان سے باہر ہی ایسا مطالبہ کریں اور اس مسئلہ پر سیاست نہ کریں، رانا ارشد نے کہا کہ خواتین کا احترام ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے لیکن مینار پاکستان میں پی ٹی آئی کے جلسے کے دوران حوا کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا س کی مذمت کون کرے گا، جس پر سپیکر رانا محمد اقبال خان نے کہا کہ ابھی وزیر قانون ایوان میں نہیں آئے جب آتے ہیں تو ان سے بات کرتے ہیں، جس کے بعد ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے وقفہ سوالات کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر وسیم اختر کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری اسداللہ آرائیں نے کہا کہ اس سال گندم کی خریداری کی پالیسی یہ ہے جو بھی زمیندار باردانے کی درخواست دے گا اسے باردانہ ضرور دیا جائے گا اور حکومت اس کی گندم خریدنے کی پابند ہوگی، کسی کاشتکار کو شکایت کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ گوداموں میں سٹاک گندم بالکل خراب نہیں ہوتی نہ ہی ضائع ہوتی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ رکن اسمبلی طارق باجوہ کے سوال کے جواب میں محکمہ نے بتایا کہ سانگلہ ہل میں 14500میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی سوالات کے جوابات دینے کے دوران پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فقیر حسین ڈوگر کو بار بار طنز کرتے رہے روکنے کے باوجود نہ رکے جس کے جواب میں رکن اسمبلی رانا لیاقت نے بھی انہیں بیٹھے بیٹھے تنقید کا نشانہ بنایا، جس پر خرم شیخ آگ بگولہ ہوگئے ، رانا ارشد نے کہا کہ جب آپ طنز کررہے تھے وہ ٹھیک تھا اگر جواب آیا ہے تو جذباتی کیوں ہو گئے ہو برداشت کرو ،جو بات کرنی ہے سپیکرسے کرو جس پر خرم شیخ نے بار بار ”شٹ اپ شٹ اپ“ کے الفاظ استعمال کئے۔ وقفہ سوالات کے دوران حکومتی رکن اسمبلی وحید گل نے کورم کی نشاندہی کردی ، جس پر اپوزیشن سمیت تمام حکومتی ممبران بھی بڑے حیران ہوئے، رکن اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر کا کہنا تھا کہ قرآن پاک کی تعلیمات کے حوالے سے بل ایوان میں پیش کیا جانا تھا۔ کورم کی نشاندہی پر سپیکر نے پہلے پانچ منٹ گھنٹیاں بجائیں پھر20منٹ کے لئے ملتوی کردیا ۔دوبارہ سپیکر5بجے ایوان میں آئے اور ایوان میں موجود ممبران کی گنتی کی لیکن کورم پورا نہ تھا۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی خواتین نے رانا ثناءکیخلاف درخواست خاتون محتسب کو جمع کرادی۔ خواتین ارکان اسمبلی نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں، رانا ثناءاللہ اس سے پہلے بھی خواتین کے حوالے سے نازیبا گفتگو کرتے رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...