وزیراعظم نے حکومتی ارکان کی عدم موجودگی پر معذرت کرلی

May 03, 2018

نواز رضا۔۔۔پارلیمنٹ کی دائری

بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس مجموعی طور پر 3گھنٹے تک جاری رہا ، جب کہ سینیٹ کا اجلاس مجموعی طور پر اڑھائی گھنٹے جاری رہا بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس4روز کے وقفہ کے بعد 29منٹ کی تاخیر سے 4بجکر29منٹ پر شروع ہوا، ایوان میں چار بجے صرف مسلم لیگ (ن) کی رکن طاہرہ بخاری اور ایم کیو ایم پاکستان کے رکن اسمبلی رشید گوڈیل موجود تھے، اجلاس شروع ہونے سے پہلے سید خورشید شاہ، شیریں مزاری اور شفقت محمود کے ساتھ بات چیت کرتے رہے اور اجلاس شروع ہونے کا انتظار کرتے رہے جبکہ اپنی تقریر سے قبل خورشید شاہ نے سید نوید قمر سے مشاورت بھی کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ چوہدری نثار علی خان کے گرد مسلم لیگی ارکان کا جمگھٹا رہا۔ مسلم لیگی ارکان ان سے مستقبل کی سیاست کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 2018-19ء کے پورے سال کے لئے بجٹ پیش کرنے پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بجٹ پر بحث کا آغاز نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اسی طرح تحریک ا نصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ہم وفاقی حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش نہیں کرنے دیں گے لیکن وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دھڑلے سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پورے سال کا بجٹ پیش کر دیا۔ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے پر منقسم اپوزیشن نے احتجاج تو کیا لیکن حکومت کو پورا بجٹ پیش کرنے سے روکنے میں ناکام رہی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ آئے تو انہوں نے ایوان میں ارکان کی تعداد کم ہونے اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے احترام میں اپنی بجٹ تقریر کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’’ وزیر اعظم ہمارے لئے قابل احترام ہیں، وزیر اعظم ایوان میں موجود ہیں مگر ان کے پیچھے نشستیں خالی پڑی ہوئی ہیں، وزیراعظم کی ایوان میں موجودگی کے وقت کم تعداد میں ارکان سے ہمیں شرمندگی ہو رہی ہے، ایوان کی کارروائی ملتوی کر دی جائے۔ میں جمعرات کو اپنی تقریر مکمل کر لوں گا‘‘۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپوزیشن لیڈر کو وفاقی وزراء اور حکومتی ارکان کی ایوان میںحاضری بہتر بنانے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ’’ پارلیمانی پارٹی سے کہوں گا کہ انتہائی اہم بجٹ اجلاس چل رہا ہے اس میں ارکان اور وزراء کی حاضری یقینی بنائی جائے‘‘۔ سینیٹر مشاہد اﷲ نے ایک رکن کے احتجاج پر کہا کہ یہ ایوان بالا ہے، یہ کسی صوبائی کونسل کا اجلاس نہیں ہے۔ یہ رکن شاید اس لئے زیادہ احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ لوٹے خرید کر اس ایوان میں پہنچے اور ان کے زیادہ پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ مشاہد اﷲ خان کے ان ریمارکس پر پورا ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔ چیئرمین کی بار بار ہدایت کے باوجود پیپلز پارٹی کے ارکان سینیٹر مشاہد اﷲ خان کی تقریر پر مسلسل شور کرتے رہے۔

مزیدخبریں