اسلام آباد ۔۔۔۔۔ قومی افق ۔۔۔۔نواز رضا
پاکستان تحریک انصاف نے 29اپریل 2018ء کو مینار پاکستان میں ایک بڑا جلسہ کر کے باضابطہ طور اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے گو کہ یہ ایک بڑا جلسہ تھا جو2011ء میں اسی مقام پر ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ کے مقابلے میں کم تر تھا اس جلسہ پر تنقید کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’جلسہ لہور دا ۔ مجمع پشور دا تے ایجنڈا کسی اور دا ‘‘ جلسہ گاہ کا پیٹ بھرنے کے لئے دوسرے شہروں سے لائے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی جب کہ لاہور کے عوام کی شرکت کم تھی اس لئے اس جلسہ نے ملکی سیاست پر گہرے نقوش نہیں چھوڑے جبکہ متحدہ مجلس عمل13مئی 2018ء کو اسی مقام پر اپنی ’’سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی جب کہ جماعت اسلامی کے انتھک امیر سراج الحق تو پچھلے پانچ سال سے انتخابی مہم پر نکلے ہوئے ہیں مولانا فضل الرحمن بھی اپنے پلیٹ فارم پر جلسے کر رہے ہیں لیکن اب جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر بڑے جلسے منعقد کریں گے۔ میاں نواز شریف جو پچھلے چھ ماہ سے مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں، انھوں نے مئی کے مہینے کے لئے بھی رابطہ عوام مہم کا پروگرام دے دیا ہے ۔انہوں نے اس پروگرام کے تحت ساہیوال اور رحیم یار خان میں بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے جبکہ وہ آنے والے دنوں میں جہلم ، چکوال چترال سمیت دیگر شہروں میں جلسوں سے خطاب کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی طے کیا ہے جن مقامات پر وہ خود خطاب کریں گے وہاں پر میاں شہباز شریف خطاب نہیں کریں گے اسی طرح مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی الگ الگ جلسوں سے خطاب کریں گے۔ ممتاز مسلم لیگی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان نے میاں نواز شریف سے راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کے لئے 7 مئی 2018 کا وقت لے لیا تھا۔ انھوں نے پورے جلسے کے انتظامات کی ذمہ داری خود لے لی تھی جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن یہ جلسہ راولپنڈی مسلم لیگ ن میں پائی جانے والی گروپ بندی کی نذر ہو گیا۔ چوہدری تنویر خان جلسہ کی تاریخ کا تعین کر کے واپس آئے تو ان کے مخالفین نے کمال ہوشیاری سے جلسہ منسوخ کرادیا جس کے بعد اب یہ جلسہ 13 مئی 2018ء کو گوجر خان منتقل ہو گیاہے۔ جب سے میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں، اس صورتحال سے کچھ دوسرے درجے کے لیڈر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ اس ’’عارضی ‘‘ناراضی کو دائمی میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج راولپنڈی میں مسلم لیگ ن ’’لاوارث‘‘ ہے۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ راولپنڈی جو کہ مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، شہر کا ہر مسلم لیگی پارٹی کو منظم کرنے کی بجائے اپنی ٹکٹوں کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ ابھی خطہ پوٹھوہار میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ نہیں آیا لیکن راولپنڈی ڈویژن میں جس لیڈر کی مرضی سے ٹکٹ جاری ہوتے ہیں، اسے مسلم لیگ کی قیادت نے الگ تھلگ کر رکھا ہے اور اسے خود اپنے ان حلقہ ہائے انتخاب کا اعلان کرنا پڑا جہاں سے وہ ’’2018‘‘ کے انتخابی معرکہ سر کریں گے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے ۔جو مسلم لیگی لیڈر کل تک پارٹی ٹکٹ جاری کرتا تھا آج اسے خود اپنے حلقہ انتخاب کے بارے میں اعلان کرنا پڑا۔ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے حلقہ 59 اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 10اور پی پی 14 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ٹیکسلا واہ کے حلقہ این اے 63 سے بھی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں تا ہم اس کا حتمی فیصلہ ہو ٹیکسلا واہ کے پارٹی لیڈروں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ منگل کو انہوں نے واہ اور ٹیکسلا کے معززین سے ملاقات کر لی ہے چوہدری نثار علی خان این اے 63 سے کسی صورت بھی اپنے سیاسی حریف غلام سرور خان کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔ وہ اس حلقے سے انتخاب لڑنے کا اعلان ٹیکسلا میں پارٹی کے رہنمائوں کی موجودگی میں کریں گے۔ سردست یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ آزاد امیدوار ہی کی حیثیت سے ہی انتخاب لڑیں گے یا پارٹی کا ٹکٹ لیں گے لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ پچھلے آٹھ انتخابات کی طرح اس بار بھی ٹکٹ کے لئے درخواست نہیں دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت خود ان کے گھر جا کر انھیں ٹکٹ دے آئے۔ چوہدری نثار علی خان پاکستان کے واحد پارلیمنٹیرین ہیں جنھوں نے مسلسل قومی اسمبلی کے آٹھ انتخابات میں جیت حاصل کی اور انھوں نے اپنی سیاست کی بنیاد(حلقہ انتخاب) کو ہمیشہ مضبوط بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لیگ ن کے بعض رہنما ان کے خلاف پارٹی سے امیدوار تلاش کر رہے ہیں لیکن اب تک انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ راولپنڈی کی سیاست سے چوہدری نثار علی خان اور چوہدری تنویر خان کو منفی نہیں کیا جا سکتا۔ جب سے دونوں رہنمائوں کے درمیان فاصلے ختم ہوئے ہیں، تب سے راولپنڈی میں کچھ مسلم لیگیوںکی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں چوہدری نثار علی خان اور چوہدری تنویر خان ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہوں گے۔ چوہدری تنویر خان بھی کافی عرصہ کے بعد روالپنڈی شہر کی سیاست میں سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے صاحبزادے بیرسٹر دانیال چوہدری کو انتخابی سیاست میں متعارف کرانے کے لئے’’ ناشتوں‘‘ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جب تک چوہدری تنویر سیاست میں سرگرم رہے راولپنڈی کی سیاست ان کے گرد گھومتی تھی انہوں ایک بار پھر مسلم لیگی کارکنوں کو اپنے گرد اکھٹا کر لیا ہے لہذا اب مسلم لیگی قیادت کو ان کو نظر انداز کر کے راولپنڈی کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتی۔ گذشتہ ہفتہ عمران خان ،مسلم لیگ (ن) کی اہم ووکٹ گرانے کا دعویٰ تو کرتے رہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی بیرون ملک ملازمت اختیار کرنے اوروصول کی گئی تنخواہ چھپانے پر آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وکٹ گرادی ہے اور انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دینے کے لیے پی ٹی آئی رہ نما عثمان ڈار کی درخواست منظور کر لی ۔ 35 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے عثمان ڈار نے کہا ہے کہ کامیابی کا سہرا عمران خان کو جاتا ہے، خواجہ آصف نے عمران خان کی شان میں گستاخی کی تھی میں نے اسی دن فیصلہ کر لیا تھا کے انہیں اسمبلی سے باہر نکالوں گاخواجہ اصف کی گردن سے سریا نکال دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ خواجہ صاحب کو آج پتہ چلا کہ شرم کیا ہوتی ہے حیا کیا ہوتی ہے۔ جب کہ مریم نواز نے کہا ہے کہ سیالکوٹ کے عوام خواجہ آصف کے سائے کو بھی ووٹ دیں گے خواجہ آصف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اب دیکھنا یہ سپریم کورٹ سے انہیں ریلیف ملتا ہے یا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہتا ہے اس کے لئے ہمیں چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔