ہمارا علاقہ یعنی برصغیر چونکہ بہت عرصہ تک دوسروں کی غلامی میں رہا ہے اور ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ ہی دو آزاد ملکوں نے جنم لیا لیکن چونکہ مسلمان یہاں اقلیت میں تھے ، پہلے انگریزوں کے غلام رہے اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہاں کے عوام وڈیروں ، نوابوں اور پِیروں کے تابع ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی بھی اکثریت عوام اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتے بلکہ جیسے اپنے علاقے کا مَلک ، چوہدری ، نواب یا پھر پیر حکم دے گا مخصوص نشان کو ووٹ ڈال دیا جائے گا جس کا فائدہ عوام کی بجائے اْس وڈیرے کو پہنچے گا جس کے ہاتھ پہ عوام نے بیعت کی تھی ، اس طرز عمل کو بھی ہم غلامی ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ غلامی میں بھی بندہ اپنے آقا کا وفادار ہوتا ہے۔
یہ غلامانہ مائینڈ سیٹ نیچے سے اوپر تک چلتا ہے جیسے کہ پاکستان کے چار صوبے ہیں جن میں پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور باقی تینوں صوبے چھوٹے ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق کی بات کرتے رہتے ہیں لیکن پنجاب کے بھی چند مخصوص علاقے ہیں جن کو پورے پنجاب پر برتری حاصل ہے ، برتری اس لحاظ سے کہ یہاں کے سیاستدان ہمیشہ سے مضبوط اور بڑے عہدوں پر براجمان دکھائی دیتے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے اضلاع ، اور پوٹھوہار کے کچھ اضلاع ہمیشہ سے نظرانداز کیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کے ایم این اے اور ایم پی اے کو کبھی بھی نامی گرامی وزارتوں کے قریب بھٹکنے بھی نہیں دیا گیا۔ یہ غلامانہ مائینڈ سیٹ کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ چند اضلاع کے منتخب عوامی نمائندے اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ کے سامنے نہ تو بولنے کی جرات کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کو اعلیٰ قیادت کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس وسطی پنجاب جس میں لاہور ، فیصل آباد ، گجرانوالا ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، قصور وغیرہ کے منتخب عوامی نمائندے ہمیشہ سے آگے آگے رہے ہیںبالکل اسی طرح سندھ ، خیبر پختونخوہ اور بلوچستان کا بھی حال ہے جہاں کے چند ایک مخصوص علاقے اپنے وڈیروں ، جاگیرداروں اور نوابوں کی وجہ سے جانے پہچانے تو ضرور جاتے ہیں مگر سارے کے سارے مفادات چند خاندان اٹھا رہے ہیں جبکہ وہاں کے عوام انہی وڈیروں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے غلام ہیں۔
جبکہ یہی غْلامانہ مائینڈ سیٹ ہمارے ملک کے حکمران بھی بیرون ممالک لے کر جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک غلام، کمزور اور مقروض ملک کا حکمران تصور کرتے ہیں ، لیکن اگر گہرائی میں سوچا جائے تو مقروض غلام ہی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی سے قرض لیتا ہے تو وہ اْسکے آگے آنکھیں اْٹھا کر کیسے بات کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان بھی تقریباً دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کا مقروض ہے اور یہی بڑی وجہ بھی ہے کہ ہم لوگ خوشحالی کی جانب سفر جونہی شروع کرنے لگتے ہیں تو آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، امریکہ اور چائنا جیسے قرض دینے والے اداروں اور ملکوں کی جانب سے نئی اکنامک پالیسی بنانے کے لیے دباؤ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور یوں مختلف شعبوں میں عوام کو دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرا دیا جاتا ہے اور نئے سے نئے ٹیکس متعارف کروا کر عوام کو سیدھا ہونے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور یوں امیر ، امیر تر اور غریب ، غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اسی غلامانہ مائینڈ سیٹ کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ ہمارا سیاسی نظام بھی بیرونی طاقتوں کے تابع ہے اور جب بھی بیرونی طاقتوں نے کسی کو کرسی پہ بٹھانا ہو یا اتارنا ہو تو اْنکے لیے کوئی مشکل نہیں ہے ، بلکہ ہمارے ملک میں جو بھی حکومت آئی ہے وہ امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب اور ترکی کی خوشنودی حاصل کیے بغیر نہیں چل سکی۔ اسکے علاوہ پاکستان میں جب بھی سیاسی بحران آیا یا پھر کسی سیاستدان پر سخت وقت آیا تو وہ ہمیشہ پاکستان کے دوست ممالک یعنی کہ ہماری خارجہ پالیسی کے اہم کرداروں کی جانب نہ صرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ اْن ممالک کے حکمرانوں کی گارنٹی بھی لی جاتی ہے ، اسکی سب سے بڑی مثال شریف خاندان کی ہے جو کہ پرویز مشرف سے بچاؤ کی خاطر معاہدہ کر کے سعودیہ روانہ ہوگئے تھے۔
یہ طرز عمل کسی بھی طرح سے پاکستان کے حق میں نہیں ہے ہم لوگ اپنے داخلی معاملات اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے بیرونی قوتوں پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں آنے والی ہر حکومت تب ہی چل سکتی ہے جب اس کو امریکہ کا آشیر باد حاصل ہو۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ ہو یا پھر کوئی اور دوست ملک سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ہمارے حکمران اور طاقتور لوگ اپنے ملک کے قوانین کو تو مانتے نہیں ہیں مگر باہر دوسرے ممالک میں جا کر ایک عام آدمی کی طرح ہر جگہ خود کو پیش کرتے ہیں ، وہ چاہے کسی ملک کی سیکیورٹی کی چیکنک ہو یا پھر کسی کیس کی تحقیقات ہوں۔یہی بااثر افراد اپنے ملک کے عوام کو غلاموں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ، بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ہمارے بڑے ہمارے عوام کے ساتھ بھیڑ بکریوں کے جیسا سلوک کرتے ہیں۔لیکن اب عوام کے پاس فیصلے کا وقت ہے کہ یوںہی غلامانہ زندگی گزارنی ہے یا پھر اپنے آپ کو غلامی کے چْنگل سے آزاد کرانا ہے۔ اگر خود کو حقیقی معنوں میں اپنی زندگی گزارنے کا اختیار حاصل کرنا ہے تو ہر قسم کے مافیا کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے جو کہ پچھلے ستر سال سے غریب عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ مافیا چاہے خاندانی سیاست کا ہو یا پھر سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، زمینداروں ، چوہدریوں ، ملکوں ، وڈیروں یا پھر قبضہ مافیا کی شکل میں ہو جس نے کہ ملک کے تمام نظام اور اداروں کو مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے۔