جب سے تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے سیاسی میدان بہت گرم ہے۔دونوں پارٹیوں کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی تیسری پارٹی بھی اقتدار میں آسکتی ہے۔ان دونوں بڑی پارٹیوں نے تو گویا حق حکمرانی اپنے نام کرا رکھا تھا۔یوں اچانک ان دونوں پارٹیوں کا اقتدار سے باہر ہونا ان دونوں کے لئے ناقابل یقین اور نا قابل تصور تھا۔لہٰذا دونوں پارٹیاں شاک میں چلی گئیں۔ جب تحریک نے دونوں پارٹیوں کے احتساب کی بات کی تو دونوں پارٹیاں شاک سے بیدار ہوئیں ۔آپس کی دشمنیاں اور رنجشیںبھول کر دونوں پارٹیاں ایک ہو گئیں۔ دونوں نے مل کر حکومت گرانے کا فیصلہ کیا لیکن مسلم لیگ ن جلد ہی احتساب کی زد میں آگئی اور اپنا کردار ادا نہ کر سکی۔اب مسلم لیگ ن کی قیادت تو تقریباً تقریباً ملک سے مختلف بہانوں سے بھاگ چکی ہے۔جناب نواز شریف بھی بھاگنے کے لئے بیقرار ہیں۔ صرف عدالت سے ’’ یس‘‘ کے انتظار میں ہیں۔ عدالت سے ’’یس‘‘ لینے کے لئے جھوٹا یا سچا کیس بھی بنا رکھاہے ۔دیکھیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف احتساب کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے لیکن تا حال زرداری صاحب پر کسی کو ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہوئی۔لہٰذا اسوقت جناب بلاول بھٹو اور تحریک کی قیادت کے درمیان گولہ باری جاری ہے۔دونوں پارٹیوں کی کھینچا تانی میں ایک اہم بات جناب بلاول بھٹو کا کردار ہے جو کھل کر سامنے آیا ہے۔کسی بھی سیاسی لیڈر کے لئے مضبوط کردار سب سے اہم ہے۔اسی لئے قائد اعظم کو ’’ نہ بکنے والا نہ بدلنے والا لیڈر‘‘ کہا جاتا تھا۔بلاول صاحب نئی جنریشن کے لیڈر ہیں۔ اسے بھٹو کا نواسہ اور بی بی کا بیٹا ہونے پر بھی فخر ہے مگر افسوس کہ وہ قائد والا کردار نہیں دکھا سکا۔ اسکا مطمع نظر عام سیاستدانوں کی طرح ’’ اقتدار ‘‘ ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح تو ایک تھرڈ کلاس سیاسی لیڈر اور بلاول بھٹو صاحب میں کیا فرق رہ گیا؟ آج سے ایک سال پہلے بلاول صاحب نے نعرہ لگایا تھا ’’ گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے۔مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو‘‘۔مگر اب ایک سال بعد نہ صرف دونوں پارٹیاں ایک ہو گئی ہیں بلکہ بلاول صاحب اسی چور اور مودی کے یار کو بنفس نفیس خود ملنے کے لئے جیل تشریف لے گئے۔ اب علاج کے نام پر اسکے لندن جانے کی حمایت کررہے ہیں۔ اقتدار کے متلاشی لیڈر سے قومی راہبری کی بھلا کیا امید کی جا سکتی ہے؟
ویسے تو سیاستدانوں کی بہت سی ’’تعریفیں‘‘ ہیں لیکن سب سے بہتر تعریف ایک بھارتی تجزیہ نگار نے کی تھی۔اس کے مطابق ’’ سیاستدان ایک ایسے شاطر انسان کو کہا جاتا ہے جو عوام کو بار بار شیشے میں اتارنے کے فن میں ماہر ہو‘‘ دوسرے الفاظ میں عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا مطلب حاصل کر لے۔الیکشن سے پہلے یہ بہت ہی میٹھی زبان والے لوگ ہوتے ہیں جو ووٹرز کی کسی فرمائش پر انکار نہیں کرتے ۔وعدے کر کر کے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیتے ہیں۔ ہر ضرورت مند کو ملازمت، ہر بیوہ کو امداد ،ہر علاقے کو پیرس بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کبھی کسی مطالبے سے انکار نہیں کرتے۔جیسے کسی نے خوب کہا تھا الیکشن سے پہلے سیاستدانوں کی ڈکشنری میں ’’نہیں‘‘ کا لفظ ہی موجود نہیں ہوتا ۔الیکشن کے بعد ’’ہاں‘‘ کا لفظ غائب ہوجاتا ہے۔
سیا ستدانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی انگلیاں ہمیشہ عوام کی نبض پر رہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ منہ سے وہ بات نکالتے ہیں جو عوام سننا چاہتے ہیں۔ بقول میرے دوست ملک صاحب کے کہ ہم جانتے ہیں کہ محترم سیاستدان جھوٹ بول رہا ہے ۔جھوٹے وعدے کررہا ہے لیکن پھر بھی ہم اسکی تقریر پر تالیاں بجاتے ہیں۔خوشی سے ناچتے ہیں اور پھر الیکشن کے دن جا کر اسے ووٹ بھی دے آتے ہیں ۔پھر اگلے پانچ سال اسکی صورت دیکھنے کے لئے ترستے ہیں ۔اسکے عوام کے سامنے کئے گئے وعدوں کو یاد کر کر کے کفِ افسوس ملتے ہیں۔ اگلی دفعہ اسے ووٹ نہ دینے کا عہد کرتے ہیں لیکن پھر الیکشن کے موقع پر اسکی چکنی چپڑی باتیں سن کر اسی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تالیاں بھی بجاتے ہیں ۔
ہمارے سیاستدانوں کے اقوال ،رویے اور عوام سے ووٹ لینے کے طریقے بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ۔ہماری ایک پارٹی اپنے آپ کو غریبوں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کے سر براہ پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں سے ہیں۔اکثر ممبران اور وزراء جا گیردار اور نواب قسم کے لوگ ہیں۔یہ پارٹی1970سے عوام کو روٹی ،کپڑا اور مکان دینے کے وعدے پر الیکشن لڑرہی ہے۔کئی دفعہ اقتدار میں آچکی ہے۔اب تیسری نسل اقتدار کے لئے پر تول رہی ہے مگر کسی کو آج تک کفن کا کپڑا تک نہیں ملا۔ہماری دوسری پارٹی اپنے آپ کو قائد اعظم کی وارث پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اپنے آپ کو سب سے زیادہ خدمت گزار، مخلص، ایماندار اور جمہوریت پسند سمجھتی ہے۔ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے پاکستان کی قسمت بدل دی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی اولاد جو نو عمری میں بھی کھرب پتی بن گئی پاکستانی کہلانے سے بھی انکاری ہے۔ جس پارٹی کے سربراہ کی اپنی اولاد پاکستانی شہری نہ ہونے پر فخر کرے اس سے پاکستان کو کیا توقعات ہونی چاہئیں۔ سوچا جا سکتا ہے۔ایک اور عظیم پارٹی عوام کے لئے نیا پاکستان بنا رہی ہے۔معلوم نہیں وہ پرانے پاکستان کا کیا کرے گی؟سب سے دلچسپ پارٹی ہماری ایسے علمائے کرام پر مشتمل ہے جو شاید ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔یہ پارٹی پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ لانے کا نعرہ لگا رہی ہے لیکن افواہ ہے کہ اس پارٹی کے سربراہ نے شہداء کی زمینوں تک ہضم کررکھی ہیں۔ہر پارٹی کے دور میں اقتدار میں رہتے ہیں ۔بہر حال خوشی کی بات یہ ہے کہ بے شک پاکستانی عوام غربت، فاقہ کشی، تنگ دستی، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبور ہے لیکن ہمارے سیاسی راہنما ما شا ء اللہ دنیا کے اُمرا ء میں شامل ہیں۔بیرون ملک وسیع جائیدادیں بنا رکھی ہیں ۔معمولی سے معمولی بیماری کے لئے بھی یورپ اور امریکہ جاتے ہیں ۔خاندانی حکمرانی کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں ۔بھولے عوام اب بھی توقع رکھتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان کو جنت بنا دیں گے۔ لہٰذا ہمارے سیاستدانوں کا کردار صرف اور صرف حصول اقتدار ہے۔ اسی لئے چاہے بھیک مانگنی پڑے جھوٹے وعدے کرنے پڑیں یا پھر کسی بڑی طاقت کی چاپلوسی کرنا پڑے۔
سیاستدان کردار کے آئینے میں
May 03, 2019