ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بارے میں اس اعلان پر کہ بھارت کے ان ایجنٹوں کا کردار اب ختم ہو گیا ہے سراہا جاتا اور اس طرح بھارت اور اس کی پروردہ اس تنظیم کو اپنی اوقات میں رہنے اور پاکستان میں کسی قسم کی مہم جوئی کی صورت میں اب پاک فوج ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرے گی کا پیغام دیا اور دو ٹوک انداز میں یہ بتا دیا کہ بھارت کو مہم جوئی کی صورت میں اسی طرح کی ہزیمت اور شرمندگی اٹھانا پڑے گی جس طرح کی 27 فروری کو اس دن اٹھانا پڑی جب پاکستان کی فوج نے سٹرائیک کی اور ان کے جہازوں کو گرایا۔ ایک ہوا باز کو پکڑا اور پھر اس کے واپس جانے کا منظر پوری دنیا نے دیکھا اور سراہا۔ میجر جنرل آصف غفور کے الفاظ کا انتخاب۔ باڈی لینگویج اور بعض منہ زور سوالات کے منہ توڑ جوابات کو بھی سراہا جاتا اور یہ پاک فوج کے ہر جرنیل کی خوبی اور خصوصیت ہے یا ہونا چاہئے مگر جب انہوں نے آزادی صحافت کی تعریف کی تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ یہ یکدم اس جرنیل کو کیا ہو گیا جسے وہ آزادی صحافت کہہ رہا ہے وہ تو غیر ذمہ داری ہے یا پھر جس ٹولے کی وہ تعریف کر رہا ہے اس نے اس ملک کے میڈیا کے ذریعے جتنا کنفیوژن پھیلایا ہے جس طرح الفاظ کو بے اعتبار کیا ہے جس طرح صحافت کے قدیم جدید اور مستقبل میں اس کی بقا اور آبرو کے لیے ناگزیر اس تصور ’’اطلاع ، رہنمائی اور تفریح کو اپنی مہم جوئی سے اور دشمن کے ایجنٹ کے طور پر اپنا ،گھنائونا کردار ادا کر کے صحافت کے کردار کو عملاً ختم کر دیا۔ میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں میڈیا کی یہ تعریف اور پھر ان کا یہ فرمانا کہ اگر 1971ء میں میڈیا اتنا آزاد ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی ہم آپ سے زیادہ رہنمائی حاصل کرتے ۔ یہ آصف غفور کی میڈیا کی تعریف تھی اگر ایسا تھا تو وہ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یا واقعی وہ اس بے لگام میڈیا سے جس کو بے مہار کرنے اور صحافت کے نام پر ملک میں جہالت اور مایوسی بانٹنے کا لائسنس دیکر سابق آمر جنرل مشرف جس اذیت سے گزر رہا ہے وہ اس کی ساری زندگی کی عیاشی اور عیش سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور اس میں اسکے دوسرے گناہوں کے ساتھ پاکستان کے اس ادارے کو جس کو پاکستان سے پہلے ہی قائد اعظم کی دور بین نگاہوں نے قیام پاکستان کے لیے موثر کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کر لیا تھا اس کی ان بنیادوں کو جو مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں ، مولانا آزاد، حسرت موہانی اور سرسید احمد خاں نے رکھی تھیں اہداف مقرر کر کے انہیں حاصل کرنے کے لیے اپنی جان مال عزت ، آزادی سب اس کی نذر کر دی تو قائد اعظم نے ڈان کے لیے الطاف حسین کا ایک کالم پڑھ کر انہیں ایڈیٹر شپ آفر کر دی۔ حمید نظامی کے پندرہ روزہ سے ہفت روزہ اور پھر روزنامہ نوائے وقت کو اپنی مکمل حمایت و سرپرستی سے سرفراز کیا اور پھر اس میڈیا نے قرار دار مقاصد منظور کرانے کے لیے جو کردار ادا کیا وہ تو صحافت سے واجبی سی دلچسپی رکھنے والے اہل وطن کو یاد ہے۔ میجر جنرل آصف غفور جس لاٹ کی تعریف کر رہے تھے اور ان سے 1971ء میں رہنمائی لینے کے متمنی تھے وہ اپنے ان سراہے جانے والوں سے ذرا یہ تو پوچھ لیتے کہ مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے موقع پر بھارت کی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل مانک شا کی سوانح جو ان کے اس وقت کے سٹاف افسر بریگیڈئر پنڈر سنگھ نے لکھی ہے جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بنا اور کتاب کا نام ہے :
سولجرنگ ود ڈگنٹی Soldering with Dignity یہ کتاب فتراج پبلشرز دہلی نے چھاپی ہے اس کتاب میں وہ جنرل مانک شا کے حوالے سے لکھتا ہے ’’ہم نے مکتی باہنی کے اسی ہزار افراد تیار کئے ان میں اکثریت مغربی بنگال اور مشرقی پاکستان کے ہندوئوں کی تھی بہت ساروں کو پاکستانی فوجی وردی پہنوا کر آرڈر کیا جاتا مشرقی پاکستان جا کر ریپ کرو تاکہ سارا الزام پاکستان پر آئے یہ ’’را‘‘ کا اپریشن تھا۔
جنرل صاحب ذرا پتہ تو کیجئے کہ جن صحافیوں سے آپ رہنمائی لے رہے ہیں ان میں سے کسی نے یہ کتاب پڑھی ہے اور اگر پڑھی ہے تو کبھی اس گھنائونی سازش سے اپنے کسی پروگرام میں پردہ اٹھایا ہے۔ پاک فوج کو صبح و شام گالیاں دینے والے آپ کی آنکھوں کے تارے ہیں تو آپ کو یہ رہنمائی مبارک ہو اور پھر جب میرے ایک طالب علم نے جو 1971ء میں ابھی سکول بھی نہیں جاتا ہو گا اس بات پر خوشی کے شادیانے بجائے کہ پاک فوج نے ان کے اور نام نہاد جمہوری قوتوں کے موقف کو تسلیم کر لیا ہے آپ اس موقف کا پتہ کر لیتے جو کسی بچے کا 1971ء میں تھا مجھے کل آپ کے ایک پیشرو لیفٹیننٹ جنرل نصر اللہ جہانگیر یاد آ گئے جب انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ اسائنمنٹ ملنے پر اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف سے کہا سر میں اس شعبے میں بالکل کورا ہوں مجھے کچھ پتہ نہیں تو چیف نے ہنس کر کہا تم کر لو گے اور کہنے لگے اس کے بعد میں نے کرلیا بلکہ کر دکھایا۔ آپ کے چیف حضرات کا آپ پر اعتماد اس بات کی چغلی کھاتا وگرنہ مجھے یاد ہے جب بریگیڈئر صدیق سالک اپنی کتاب The Surrender I saw کے نام پر اسی دفتر میں بیٹھ کر رائے لے رہے تھے اور میں نے اس نام میں کوئی قباحت نہیں سمجھی تھی تو وہ بولے کہ میں جس ادارے کو ’’ریپریزنٹ‘‘ Represent کرتا ہوں اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ کوئی نقطہ میرے منہ سے ایسا نہ نکلے میرے قلم سے ایسا نہ لکھا جائے جس کی توضیح و تشریح میں بین السطور میں بھی کچھ تلاش کیا جا سکے اور پھر کتاب کا نام کب کس کے کہنے پر یا ان کی اپنی عرق ریزی کے نتیجہ میں Witness to Surrender رکھا گیا۔
حضور والا !آزادی صحافت اور بے لگامی غیر ذمہ داری میں فرق کو ضرور سمجھیں اگر آپ نے ایسی حیثیت میں کام کرنا ہے اور خدا را جعلی دانشوروں اور پاک فوج کو گالیاں دینے والوں اور پاکستان کے غداروں سے ٹیلی ویژن پر ان کے موقف کو پیش کرنے کے حامیوں کے صحافتی غباروں میں ہوا نہ بھریں یہ اینکر جو مہینوں سے نہیں سالوں سے اگلے چوبیس گھنٹے بڑے اہم ہیں اگلے پانچ دن میں بہت کچھ ہونے والا ہے یہ ہفتہ بہت خطرناک ہے ایسے کلیم کر کے اپنا جھوٹ ثابت ہونے پر شرمندہ نہیں ہوتے ان کے جھوٹ اور جہالت کو درجۂ قبولیت پر لانے سے آپ اس ملک کو پہنچنے والے نقصان میں برابر کے حصہ دار سمجھے جائیں گے اور آخر میں آزادی صحافت زندہ باد۔ سنسنی خیزی، جہالت، جھوٹ ، بلیک میلنگ اور وطن دشمنی مردہ باد۔