لاہور گیریژن یونیورسٹی میں یوم اقبال

لاہور گیریژن یونیورسٹی لاہور میں بسلسلہ تقریبات یومِ اقبال 2019ء ایک توسیعی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ مہمانِ خصوصی نواسۂ علامہ اقبال، ماہر اقبالیات میاں اقبال صلاح الدین تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام سے ہوا۔
تلاوت اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے استاد مولانا عرفان اللہ سیفی نے کی۔ جب کہ نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم عرفان رشید نے پیش کی۔
لوح بھی تُو قلم بھی تُو ترا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب
تمجیل طاہر نے کلام اقبال نہایت خوش الحانی سے پڑھا۔ کمپیئر نے کہا کہ لاہور گیریژن یونیورسٹی اس لحاظ سے خوش بخت ہے کہ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر میجر جنرل (ر) عبید بن زکریا ہلالِ امتیاز (ملٹری) کو اردو سے عشق ہے وہ شعبۂ اردو کی سرپرستی فرماتے ہیں اور اس حوالے سے منعقد ہونے والی علمی کانفرنسوں اور ورکشاپوں کو سراہتے ہیں۔ شعبۂ اردو کو ایک ایسی متحرک شخصیت ڈاکٹر ارشد اویسی میسر آئی ہے کہ اچانک ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور زلزلے سے اندر سے ایک بڑی کانفرنس یا علمی ادبی تقریب سامنے آ جاتی ہے۔ حرف تشکر کے لیے وائس چانسلر صاحب کواسٹیج پر دعوت دی گئی تو انہوں نے معزز مہمان میاں اقبال صلاح الدین اور ان کی اہلیہ محترمہ بیگم میاں اقبال صلاح الدین کو خوش آمدید کہا۔ وائس چانسلر میجر جنرل (ر) عبید بن زکریا ہلال امتیاز (ملٹری) نے لائٹ موڈ میں باتوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ آج ماحول میں حلاوت بھی ہے اورملاحت بھی ہے، اس لیے اردو میں بات ہو گی۔ میاں اقبال صلاح الدین صاحب میرے دیرینہ دوست ہیں۔ آج مجھے چاند سے ملا دیا ہے حالاں کہ ایسانہیں ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کلام اقبال تشریح قرآن ہے۔ تفہیم کلام اقبال ہی سے ہماری زندگیوں میں انقلاب آ سکتا ہے۔
نوجوانوں کو کلام اقبال کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہماری یونیورسٹی کے زیر اہتمام بین الاقوامی اقبال کانفرنس انعقاد پذیر ہوئی۔ ترکی، ایران اور سعودی عرب سے اسکالرز آئے۔ ایران والوں نے کہا کہ آپ ہمارے ہاں آئیں، آپ کو علامہ اقبال کی شاعری ہر جگہ نظر آئے گی، ترکی سے آئے ہوئے اسکالرز نے کہا کہ اقبال تو ہمارا ہے۔ شکر ہے کہ ہماری کانفرنس میں این میری شمل نہیں تھیں ورنہ وہ جرمنی کے حوالے سے کہتیں کہ اقبال ان کا ہے۔ علامہ بہت بڑی شخصیت تھے۔ علامہ اقبالؒ کی زندگی میں سادگی اور گلیمر دونوں چیزیں ہیں۔ فلسفہ، شاعری، سیاست ، سیاحت اور ان کی شخصیت میں موجود دیگر خوبیاں فلم کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ یہ میری تمنا ہے کہ علامہ اقبالؒ کی زندگی پر فلم بنے اور یہ فلم ضرور بنے گی۔
کمپیئر نے کہا کہ میاں اقبال صلاح الدین خانوادۂ اقبال کے نمائندہ ہیں، انہیں بات کرنا آتی ہے۔ ان کی گفتگو میں ابلاغ بھی کمال درجے کو چُھوتا ہوا نظر آتا ہے۔
بھلا یہ فن کہاں ہر کسی کو آتا ہے
وہ گفتگو نہیں کرتا، دیے بناتا ہے
میاں اقبال صلاح الدین نے اسٹیج سنبھالتے ہی حاضرین کو السلام علیکم کہا۔ فرمایا۔
جنرل عبید زکریا کے ساتھ میرے مراسم چالیس سال پر محیط ہیں۔
(Such a nice person) انہوں نے یونیورسٹی کے لیے بڑے بڑے کام انجام دئیے ہیں۔ علامہ اقبال کی کتاب ’’تشکیل جدید الہیاتِ اسلام‘‘ سب سے کم سمجھی اور پڑھی ہوئی کتاب ہے۔ شاید یہ خطبات و مطالعات جن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں، لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ مسلمان اجتہاد سے گریزاں ہیں اور تقلید کو اپناتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے قرآن و حدیث سے فائدہ اٹھایا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کا دین سُنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ علامہ صاحب نے اسلام، قانون ، تاریخ اور ثقافت کا گہرا مطالعہ کیا۔ اگر تم مسلمان کی سی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو یہ ممکن نہیں آپ قرآن کے بغیر رہ سکیں۔ قرآن انسان کا رشتہ کائنات سے جوڑتا ہے۔ لیکن مسلمان تقلید کرتے ہیں۔ مرد مومن کی رسائی انفس و آفاق تک ہے۔
علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ کثرتِ رائے سے اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ اجتہاد نہ کیا جائے تو صرف تقلید کا راستہ ہی رہ جاتا ہے۔ قرآنِ مجید کئی جہانوں کی خبر دیتا ہے۔سورۂ اخلاص کی تفسیر کے مطابق مسلمانوں کو ایک ، بے نیاز اور دوسرے سے ممتاز ہونا چاہئے۔ ہر علم حاصل کرنا چاہئے، عقلی و تجرباتی علوم حاصل کرنے چاہئیں۔ثواب کی اپنی اہمیت ہے لیکن قرآن پر غور کرنے سے افلاک کی بلندیوں اور انفس و آفاق تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ آپ لوگ کلامِ اقبال پر غور کریں۔ اگر آپ میں احساس پیدا ہو جائے تو آپ کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن