اللہ کے فضل و کرم سے وطن ِعزیز میں چار موسم پورے سال کے دوران اپنے اپنے وقت اور ترتیب کے ساتھ آتے ہیں۔ سردی، گرمی، بہار اور برسات سے ہم ہر مرتبہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی بہار کا موسم آیا ہے لیکن بڑے عجب انداز سے ،کہ موذی مرض کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون تک نوبت آ پہنچی ۔ لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے لئے کہا گیا اور اس پر بڑی تعداد میں لوگ عمل بھی کر رہے ہیں۔ اس بندش اور رکاوٹ سے موسم پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ بہار کی آمد پوری آب و تاب سے ہوئی ہے ۔ لوگوں ، پرندوں اور جانوروں کی طبیعت اور میلان میں بھی تبدیلی آئی ہے ۔ ظہیر کا شمری کی مشہور غزل کا یہ مصرعہ بار بار یا د آتا ہے ۔ ’’موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے‘‘۔ بہار کا موسم آئے تو پھولوں کے رنگ اور خوشبو کی بہار آپ ہی آپ اپنا احساس دلانے لگتی ہے ۔ جن ملکوں میں درختوں اور پودوں کی افزائش کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، وہاں پھولوں اور رنگوں کی بہار سے نہایت خوبصورت نظارے جنم لیتے ہیں۔ ان نظاروں کی وجہ سے لوگوں کے مزاج اور احساس میں ایک حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے ۔ دنیا بھر میں ہالینڈ کو پھولوں کی پیداوار کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل ہے۔ وہاں پھولوں کا بہت وسیع کاروبار ہے کہ ساری دنیا میں مختلف اقسام کے موسمی پھول بھجوائے جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر کئی شہروں میں پھولوں کی کثرت بہار کے موسم میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ دراصل بہار کے موسم کا عجیب کمال ہے کہ فضائوں میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔ جاپان کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ وہاں بہار کا موسم آتا ہے تو ہر طرف خوبصورت پھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ درختوں اور پودوں پر رنگ و بو اور خوشبو سے انتہائی فرحت انگیز کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ان دنوں بھی وہاں بہار کا موسم عجب رنگ لئے ہوئے ہے۔ ہر طرف ’’چیر ی بلاسم‘‘کے پھولوں نے ہر جگہ اور ہر مقام پر درختوں اور پودوں پر اپنا قبضہ کر رکھا ہے اور ایسے خوبصورت دلکش اور دلفریب نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ قدرت کی صناعی اور مہربانی پر بار بار شکر ادا کرنا پڑتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ پودے اور درخت موجود ہیں، وہاں فضا معطر اور خوشبوئوں میں بسی ہوئی ہے۔ یہ بہار کا کمال ہے اور ہر سال ایسا ہوتا ہے۔ یہ کمال صرف چند ملکوں میں نہیں ہوتا ، جہاں جہاں اور جن ملکوں میں سبزہ درخت اور پودے ہوتے ہیں، وہاں پھول کھلتے ہیں اور خوب کھلتے ہیں۔ پھول کھلنے سے بہار کا احساس نمایاں ہوتا ہے ۔ اور ہم انسانوں پر اس کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا انسانی مزاج پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ شاعروں نے بہار اور اس سے متعلق دیگر معاملات پر اشعار اور نظموں کے ذریعے بھرپور جذبات کا اظہار کیا ہے۔ فیض صاحب کی غزل کا یہ شعر بھی زبردست عکاسی کرتا ہے۔ رنگ پیراہین کا، خوشبو، زلف لہرانے کا نام /موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام ،انسانی نفسیات بہار یہ اثرات سے از خود متاثر ہوتی ہے ۔ ایسے عالم میں لوگ تصوراتی خاکوں سے خود کو بہلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔کیا خوب شعر کہاگیاہے ۔ ’’پھول ہی پھول کھل اُٹھے میرے پیمانے میں /آپ کیا آئے بہار آگئی مے خانے میں‘‘۔ یہ تصوراتی دنیا میں بہار کی آمد کا حال ہے ۔ احمد فراز نے برملا کہا تھا ۔ ’’پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں/تیرے آنے کے زمانے آئے۔ دراصل بہار اور پھولوں کا رشتہ فِطری انداز میں لازم و ملزوم ہے۔ چولی دامن بھی کہا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات صورت حال کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انسانی ذہن کو حالات کی مجبوری اور جبر کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ ایسی کیفیت میں شاعر نے بر جستہ اور بر محل کہا ہے ‘‘ ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار‘‘۔ یعنی بہار کا جادو ہر حالت اور ہر کیفیت میں اپنا آپ دکھا کر رہتا ہے ۔ جب صورت حال یہ ہو کہ بہار کا جوبن عروج پر ہو، لیکن مجبوری ِحالات سے بہار کی اس کیفیت سے لطف اندوز نہ ہوا جا سکے اور دل ترس کر رہ جائے تو بے بسی اور مجبوری کو واضح کرنا ہی پڑتا ہے کہ توبہ کر کے اسے توڑنے کی طاقت یا حوصلہ نہیں ہوتا ۔ انسانی جذبات و احساسات کو ایک حد تک ہی پابند اور محدودکیا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ اس مرتبہ بہار کے موسم میں کوروناوائرس نے ساری دنیا میں اداسی اور بے بسی کی کیفیت کو نمایاں کیا ہے ۔حالت یہ ہے کہ پھول تو اس بار بھی پوری طرح اور بھرپور انداز میںکھِلے ہیں لیکن وائرس سے بچنے کے لئے سبھی لوگوں کو لاک ڈائون کی پابندی کرنا پڑ رہی ہے ۔
یااللہ رحم فرما ،نیکیوںکے اس موسم بہار(رمضان المبارک)میں کوروناسے جلد نجات عطا فرما‘‘۔