چند روز قبل مولانا طارق جمیل کی وزیر اعظم عمران خان کے حق میں کروائی جانے والی دعا کو میڈیا کی طرف سے متنازع قرار دینے کے بعد شور وغوغا برپا کر دیا گیا۔اور مولانا کی شخصیت پر سوال اٹھا دیئے گئے۔جس کے نتیجہ میں مولانا کو ایک ٹاک شو میں سینئر صحافیوں کے سامنے آکر معافی مانگنی پڑی،اور اس معافی کا مانگنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک عجیب گھمسان کارن پڑ گیا،اور ٹویٹر ، انسٹاگرام اور فیس بک ٹرینڈ مولانا کے معافی مانگنے پر میڈیا پر سنز پر مغلظات اور لعنتیں برسانے لگا۔اس موجودہ ٹرینڈ پر بات کرنے سے قبل ماضی کے دریچے میں جھانکنا چاہوں گا۔جب ایک وقت تھا ،پی ٹی وی کے علاوہ کوئی چینل نہیں ہوا کرتا تھا،ان دنوں مولانا نے ٹی وی کا رخ نہیں کیا تھا۔اور تب آپ سے عقیدت اور محبت کرنے والے مولانا کا بیان ٹیپ ریکارڈر سے آڈیو کیسٹ کے ذریعے محفوظ کر لیتے جو ان دنوں کا ٹرینڈ بھی تھا،اورپھر اس بیان کو ملک کے طول و عرض میں بھی سنا جاتا۔اس طرح آپ کے نیازمندوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔مولانا طارق جمیل ان دنوں تصویر کھچوانے کے بھی سخت خلاف تھے۔پھر مشرف دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو تب بھی مولانا نے ٹی وی پر آنا مناسب نہ سمجھا۔لیکن پانچ سال قبل انھوں نے اپنے بیان ٹی وی چینلز کے لیے کھول دیئے۔اور بلا معاوضہ اپنے پروگرامز کی ریکارڈنگز نشر کرنے کی اجازت دے دی،اور مولانا کے اس قدم نے روایتی عالم دین کے مقابلے میں ایک بلند پایہ عالم کی قدر میں اضافہ کر دیا۔پھر ہر چینل فخر کے ساتھ رمضان میں پرائم ٹائم کے دوران مولانا طارق جمیل کے بیان کے دوران یہ پٹی بھی چلاتا کہ یہ پروگرام مولانا کی طرف سے بلا معاوضہ نشر کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔آیات اوراحادیث کی روشنی میں ابلاغی چاشنی اورشعلہ بیانی کے ساتھ ساتھ پیسے سے بے رغبتی اور دینی خدمت کے جذبہ کے اس منفرد قدم سے مولانا کی فین فالوونگ میں بے انتہا اضافہ ہوتا چلا گیا،اور یہاں تک کے تمام فرقوں کے لوگوں کے لیے مولانا پسندیدہ شخصیت بننے لگے۔اس کی بنیادی وجہ مولانا کا گروہ فرقہ بندی ،منافرت اور اشتعال سے ہٹ کر صرف انسانی معاشرتی معاملات اور ذمہ داریوں کو اپنا موضوع بنانا تھا۔فین فالوونگ کا تو یہ عالم تھا اولڈ جنریشن مولانا سے تو واقف تھی لیکن نیو جنریشن میڈیا کی بدولت مولانا کی تیزی سے ڈائی ہارٹ فین بن گئی،اور یقینا ابھی تک بہت سی نو جوان نسل کو پاکستانی تبلیغی مرکز کے مرکزی رہنما و بزرگ مرحوم مولانا عبدالوہاب و دیگر کا علم ہی نہیں،اور وہ مولانا طارق جمیل کو ہی مرکزی تبلیغی رہنما سمجھتے ہیں۔مولانا طارق جمیل جتنا عام افراد میں مشہور و معروف رہے، اس سے کہیں زیادہ خواص میں بھی ان کی پذیرائی تھی۔ شوبز کی رنگین دنیا کی شخصیات ہوں یا پھر ہاکستانی سیاسی جماعتوں کے سر براہ اور یا کہ بڑے کاروباری افراد سب کی ان سے راہ و رسم اور نیاز مندی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کھیل اور شوبز کے ستارے جن میں انضمام الحق ، یوسف سعید انور ، مشتاق ،اور مرحوم جنید جمشید،حمزہ علی عباسی ،فیروزخان ، وینا ملک ، نرگس ، اور بھارتی فلم سٹارعامر خان نے مولانا کی تبلیغ سے متاثر ہو کر اپنے شعبے میں رہتے ہوئے طور طریقوں کو بدل لیا یا پھرمکمل خیر باد کہہ دیا۔اسی طرح سیاست دانوں میں میاں برادران اور چوہدری برادران سے ایسے ہی تعلقات تھے جیسے آج عمران خان سے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں حضرت مولانا سرکاری دربار میں بار بار کھینچے نہیں چلے جاتے تھے نہ ہی حکومت اور نہ ہی رہنمائوں کے حق میں بیان دیتے تھے۔آج اس تمام پس منظر میں مولانا کے مخالفین ان کی دعوت و تبلیغ کی خدمات کو ایک طرف رکھ کر طارق جمیل کو ایک برانڈ کا لقب دینا شروع کر دیا ہے کہ حضرت مولانا اب خواص کے بن چکے ہیں۔عام کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے۔اس دوران مولانا کی عزت اور شہرت کی بنا پر کئی مخالفین کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنے لگے۔خیر جب سب Smooth چل رہا تھا تو پھر چائے کی پیالی میں طوفان کیوں برپا ہو گیا؟ مولانا کو لے کر محاذ کیوں کھڑا ہو گیا؟شائد یقینا اس کی وجوہات میں سے یہ ہے کہ ایک عالم دین سب کا عالم دین ہوتا ہے۔یہاں ایک بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں ،پاکستانی عوام عالم دین کو دین کیلئے سن تو سکتے ہیں مگر سیاسی نظام میں سے Miss Fit سمجھتے ہوئے اپنی سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ فصاحت اور بلاغت میں مولانا طاہرالقادری کی فین فالوونگ ان سے بھی زیادہ تھی اور ان کا انداز کلام و بیان بھی کسی سے کم نہ تھا۔مگر جونہی وہ سیاسی غلام گردشوں میں محو سفر ہوئے انکے سننے والے ان سے دور ہوتے گئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام سیاسی بغض کی بنا پر مولانا طارق جمیل کی دعوت و تبلیغ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دوری اختیار کر لیں۔