کیا 18ویں آئینی ترمیم کی تنسیخ ممکن ہے ؟

قیام پاکستان کے ساتھ ہی آئین کے ساتھ کھلواڑ شروع ہو گیا تھا کئی سال تک ملک 1935ء کے ایکٹ کے تحت چلایا جاتا رہا ہماری آئینی تاریخ حاد ثات سے بھری پڑی ہے بار بار آئین شکنی نے جہاں پاکستان کو دو لخت کر دیا وہاں ملک میں جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیا 1956ء کا آئین بنا تو جنرل ایوب خان نے اسے اپنے پائوں تلے روند دیا پھر انہوں نے 1962میں اپنے بنائے ہوئے آئین کو1969میں منسوخ کر کے مارشل لگا کر اقتدار فوجی ڈکٹیٹر یحیی خان کے حوالے کر دیا ’’ایک شخص ایک ووٹ ‘‘ کی بنیاد پر قائم ہونے والی قومی اسمبلی میں بنگالیوں کو اقتدار نہ ملنے پر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں بچے کھچے پاکستان کا متفقہ آئین بنایا پچھلے 47سال سے پاکستان کو متحد رکھنے کی یہ آئینی دستاویز فوجی آمروں کے پائوں تلے روندے جانے کے باجود کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے جو شخص بھی حکمران آیا اس نے 1973ء کے آئین کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کس نہ چھوڑی فوجی حکمرانوں نے تو اس آئین میں تمام اختیارات صدر کو دے کر عملاً پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا فوجی ڈکٹیٹرز نے آئین1973ء میں وزیر اعظم جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتا تھا کو گھر بھجوانے کا اختیار صدر مملکت کو دے دیا کبھی آئین میں 8ویں اور کبھی17ویں ترمیم کی آڑ میں وزرائے اعظم کو گھر بھجوانے کا کھیل کھیلا جاتا رہا بالآخر مئی2006ء لندن میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو اکٹھے ہوئے تو دونوں نے ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے کی قسم کھائی اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں جمہوری پارلیمانی ملک بنانے کا عہد کیا انہوں نے ’’میثاق جمہوریت (charter of democracy ( کی تاریخی دستاویز پر دستخط کئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو تو 2007ء میں لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا لیکن 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو آئین 1973ء کو میثاق جمہورت کی روح کے مطابق بنانے کے لئے سینیٹر میاں رضا ربانی کی سربراہی میں ایک آئینی کمیٹی بنائی گئی جس نے کئی ماہ کی دن رات کی کاوش سے 18ویں ٓئینی ترمیم تیار کر لی8اپریل2010کو اس آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری حاصل کی گئی جب کہ سینیٹ نے 15اپریل 2010ء کو آئینی ترمیمی بل کو منظور کیا 19اپریل 2010ء کو صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ کا درج حاصل ہو گیا آئین 1973ء کا حصہ بننے کے بعد پچھلے 10سا ل سے مخصوص سوچ کے حامل سیاسی و غیر سیاسی عناصر اس میں مین میخ نکالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کسی کو آئین کا کردار تبدیل کرنے کی جرات نہیں میاں نواز شریف نے جرات کر کے آئین کی13ویں ترمیم کے ذریعے اس وقت کے صدر سردار فاروق لغاری سے پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار چھین لیا تھا لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف نے 12اکتوبر1999کو جمہوری حکومت کا تختہ دیا پھر جمہوری قوتوں کو مارشل لاء ختم کرنے کے عوض ان ہی سے آ ئین میں 17ویں ترمیم منظور کروا کر نہ صرف پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار حاصل کر لیا بلکہ 12اکتوبر1999ء کی آئین شکنی پر انڈیمنٹی بھی لے لی آئین میں 18ویں ترمیم کی اہم بات یہ کہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری رضاکارنہ طور اپنے اختیارات سے دستبردار ہو گئے قومی اسمبلی کے342کے ایوان میں292ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے تھے اس ترمیم کے بعد صدر کے بے پناہ اختیاروزیر اعظم کو منتقل ہو گئے جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا راستہ روکنے کی قانون سازی کر رکھی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو تو 2007میں ہی شہید کر دی گئیں لیکن تیسری ٹرم ختم کرنے کا فائدہ میاں نواز شریف کو حاصل ہوا اس ترمیم کے تحت شمال مغربی صوبہ کی اکثریتی پشتون آبادی کو ’’خیبر پختونخوا‘‘ کا نام مل گیا اس ترمیم میں یہ شق بھی شامل کر دی گئی کہ کوئی عدالت آئین کی معطلی کی کارروائی کی توثیق نہیں کر سکے گی اس ترمیم کے بعد جہاں صدر سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار واپس لے لیا گیا وہاں صدر کے پاس کسی صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار نہیں رہا ۔ اس ترمیم کے تحت جہاں جہاں آئین میں جنرل ضیا الحق کا ذکر ہے اس کوختم کر دیا گیا ہے اسی طرح آئین سے جنرل پرویز مشرف کی متعارف کرائی گئی 17ترمیم اور لیگل فریم ورک آرڈر کو ختم کر دیا گیا ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیاگیا جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر پارلیمانی کمیٹی کو ججوں کی تقرری کا اختیار تو دیا گیا لیکن عدلیہ نے جوڈیشل کمیشن کی سفارش کو اختیار میں تبدیل کر دیا اسی ترمیم کے تحت اسلام ہائی کورٹ قائم ہوئی 18ویں ترمیم کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر کے وزیر اعظم کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا صدر کو مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کیلئے وزیر اعظم کی ’’ایڈوائس‘‘ کا پابند بنا دیا گیا کنکرنٹ لسٹ ختم کر کے صوبائی خود مختاری دے دی گئی ۔ اپوزیشن نے دیکھا کہ حکومت ’’کورونا وائرس ‘‘ کی آڑ میں آئین میں18ویں ترمیم اور مشترکہ مفادات کونسل کے ساتھ کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو پوری اپوزیشن کھڑی ہو گئی ۔ مولانا فضل الرحمنٰ اور میاں شہباز شریف جو ’’کورونا وائرس‘‘ کی وجہ سے ’’قرنطینہ‘‘ میں تھے کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں میں تیزی آگئی بلاول بھٹو زرداری ، میر حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں کو’’ آن بورڈ‘‘ لیا تمام رہنمائوں نے 18ویں آئینی ترمیم کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا اور کہا کہ جمہوری قوتیں 18ویں آئینی ترمیم پر کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ اعلامیہ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ 18 ویں ترمیم میں تبدیلی کی بجائے اس پر عملدر آمدکو یقینی بنایاجائے، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حقوق کا ہرحال میں دفاع کیا جائیگا۔ اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں کی طرف سے آئین میں 18ویں ترمیم کا بھرپور انداز میں دفاع کرنے کے اعلان کے بعد حکومت کی طرف سے آئین میں 18ویں ترمیم پر ’’پسپائی ‘‘ اختیار کر لی گئی ہے سر دست وفاقی حکومت نے آئین میں 18ویں ترمیم کا پنڈورہ باکس نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے اپوزیشن کے شدید رد عمل نے حکومت کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے پر مجبورکر دیا ہے اب حکومتی حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے فی الحال 18ویں ترمیم کی تنسیخ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں جب تحریک انصاف کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہی نہیں تو اسے 18ویں ترمیم کی تنسیخ کا گیت الاپنے کی ضرورت ہی نہیں تھی18ویں ترمیم کی تنسیخ کا راگ الاپ کر اس نے اپوزیشن کو متحرک کردیا ہے جو کام اس کے بس کا روگ نہیں اس پر اسے طبع آزمائی سے گریز کرنا چاہیے تمام پارلیمانی گروپوں میں اتفاق رائے سے ہی آئین میں کوئی ترمیم آسکتی ہے معلوم نہیں حکومت کس کے ایجنڈے کے تحت18ویں آئینی ترمیم میں ردوبدل کی باتیں کرتی ہے ؟ اسکے اس طرز عمل سے ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے موجودہ حالات میں ملک کسی بھی آئینی بحران کامتحمل نہیں ہوسکتا۔

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن