نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ 

May 03, 2021

انسانی ترقی کا عمل راستوں کی دستیابی اور تعمیر سے وابستہ ہے۔جہاں سڑک کی تعمیر شروع ہوتی ہے،ترقی کا عمل از خود ارتقائی منازل طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ جدید خطوط پر استوار مربوط مواصلاتی نظام کسی بھی ملک کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قومی یک جہتی کے فروغ کا بھی اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو  آئیڈیل جغرافیائی لوکیشن کے پیش نظر خطے میں تجارتی نقطہ نظر سے اہم مقام حاصل ہے۔ اس کلیدی پوزیشن سے تمام تراستفادہ اور اندرون ملک بڑھتی اقتصادی سرگرمیوں کے پیش نظر ضروری ہے کہ مواصلاتی نظام کو بھی جدیدضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے ۔ملک میں موٹرویز،قومی شاہرات،سٹریٹجک روڈز،پلوں اور سرنگوں کی پلاننگ، تعمیر، آپریشن اور مرمت کاکام وزارت مواصلات کے ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سپرد ہے۔اس وقت ملک میں روڈ نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی تقریباً 264000  کلومیٹر ہے۔ جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر کنٹرول 51  سڑکوں کی لمبائی 13572 کلومیٹر ہے، جن میں 11255 کلومیٹر 38 قومی شاہرات ، 2055 کلومیٹر10 موٹرویز اور 262 کلومیٹر 3 سٹریٹجک روڈز شامل ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے روشن اور وسیع تر تعمیراتی وڑن کی روشنی میں وزارت مواصلات کے ذیلی ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے تعمیری عمل کو نجی شعبہ تک تو سیع دیتے ہوئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ملک بھر میں موٹرویز کی تعمیر کیلئے کام شروع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے پی پی پی کی بنیاد پر منصوبے شروع کرنے کیلئے جامع پالیسی تشکیل دی ہے اور اس حوالے سے ایک ایکٹ بھی منظور کیا ہے، تاکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر منصوبوں کو موثر انداز میں آگے بڑھایا جاسکے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی کا قیام بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مرکزی دفتر میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سیل کام کر رہا ہے، جس نے ملک میں قومی شاہرات، موٹر ویز، سرنگوں اور پلوں کی تعمیر میں پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کے لئے عملی پیش رفت کی ہے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی سمجھتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے فنی، انتظامی اور مالی وسائل، اتھارٹی کی کوششوں میں فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔چنانچہ تفصیلی غور و خوض کے بعد این ایچ اے نے موٹرویز اور قومی شاہرات کے کئی اہم منصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا۔اس عمل سے نہ صرف تعمیری صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ نجی شعبہ کی شمولیت سے قومی خزانہ پر بوجھ بھی کم ہوگا۔اس حوالہ سے وفاقی وزیر مواصلات و پوسٹل سروسز مراد سعید نے این ایچ اے کے تمام انجنیئرز،ماہرین تعمیرات اور انتظامی امور سے وابستہ اعلی افسران پر زور دیا ہے کہ وطن پاک میں تعمیری عمل کو مزید تیز کرتے ہوئے موٹرویز کے طے شدہ منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ ملک میں قومی خزانہ پر بوجھ ڈالے بغیر زیادہ سے زیادہ سڑکیں تعمیر ہوسکیں۔تمام اہم  سڑکوں کی تعمیر سے جہاں مختلف علاقوں کے عوام کو آمدورفت میں آسانی ہوگی،سفر سہل اور منزلیں قریب تر ہوجائیں گی وہاں زراعت،صنعت اور تجارت کے فروغ کے ساتھ ساتھ تعمیرات کا شعبہ تیزی سے ترقی سے ہمکنار ہوگا۔سڑکیں ہی دوریاں کم کرنے اور طویل فاصلے مٹانے میں مدد دیتی ہیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بلاشبہ ملکی تعمیر وترقی کا ضامن ہے،جس سے تعمیراتی شعبہ کو فروغ دے کر صنعت وتجارت سمیت تمام تر شعبوں میں برق رفتار ترقی لانے کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔تعمیر وترقی کے اس سفرکی منزل یقینا ایک روشن درخشاں اور نیا پاکستان ہے،جس میں نئی نسل پْر امن اور پْر اطمینان زندگی گزار سکے گی۔
 حکومت کا وژن ہے کہ 2030 تک سڑکوں کی تعمیر و توسیع میں خاطر خواہ اضافہ کیاجائے،تاکہ آئندہ سالوں میں پاکستان کی تجارتی ضروریات اور خطہ میں مستقبل کی علاقائی تجارتی سرگرمیوں کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کا تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی چین۔پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) اور سنٹرل ایشیاء  ریجنل اکنامک کوآپریشن پروگرام(کیریک)کے تحت ملک بھر میں سڑکوں کی تعمیر اور اپ گریڈیشن کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے،جس کا بنیادی مقصد ملک میں معاشی اور معاشرتی ترقی کی رفتار تیز کرنا ہے۔وزارت مواصلات کے ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی) کی بنیاد پر موٹرویز کی تعمیر کیلئے عملی پیش رفت کی ہے اور اب این ایچ اے کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں پی پی پی ضروری عنصر کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر شروع کئے جانے والے منصوبوں میں دیگر امورکے علاوہ روڈ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، پائیدار ترقی،آف بجٹ فنانسنگ، کارکردگی، سرمایہ کاری اور ریونیو کا حصول جیسے مقاصد شامل ہیں۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے گزشتہ چند سالوں میں کامیاب کاوشوں کی بدولت پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ماحول فراہم کیا اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بی۔او۔ٹی(Build-Operate-Transfer)کی بنیاد پر135 ارب روپے کے چار منصوبے ایوارڈ کئے جن میں دو کلومیٹر طویل N-5 پر حبیب آباد پل،357 کلومیٹر طویل چھ رویہ لاہور۔ اسلام آباد موٹر وے کی اوور لے اور ماڈرنائزیشن، 136  کلومیٹر طویل 4لین کراچی۔ حیدر آباد ہائی وے کو 6 لین پر مشتمل موٹر وے میں تبدیل کرنا اور 89کلومیٹر4 رویہ لاہور۔ سیالکوٹ موٹر وے کی تعمیر شامل ہے جبکہ اس موٹر وے کا سٹرکچر 6 لین پر مشتمل ہے۔یہ تمام منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل ہوچکے ہیں اور آپریشنل ہیں۔این ایچ اے نے اس کامیاب سلسلے کوآگے بڑھاتے ہوئے مزید 9 منصوبے پی پی پی کی بنیاد پر مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی مجموعی لمبائی1726کلو میٹر بنتی ہے ان میں حیدر آباد۔سکھر موٹروے کا منصوبہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ حیدر آباد۔سکھرموٹروے کے میگاپراجیکٹ کی تعمیر کو بہتر انداز میں پلان کرنے اور اس منصوبے میں پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کیلئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ(PPP) اتھارٹی کے مشترکہ ا ہتمام سے این ایچ اے کے مرکزی دفتر میں سٹیک ہولڈرزکا مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا۔پاکستان میں مقیم سعودی عرب کے کمرشل اتاشی،ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک گروپ کے نمائندوں نے وڈیو لنک کے ذریعہ اجلاس میں شرکت کی۔ سٹیک ہولڈرزسے مشاورت کا مقصد حیدر آباد۔سکھر موٹروے کی پروکیورمنٹ کے سلسلہ میں تعمیراتی شعبہ کے ماہرین کی تازہ تجاویز اور ان کی رائے کا حصول تھا۔ حیدر آباد۔سکھر موٹروے کراچی۔پشاور نارتھ ساؤتھ اکنامک کاریڈور کا آخری سیکشن ہے،جس کی تعمیر کیلئے کاوشیں جاری ہیں۔ مجوزہ سکھر۔حیدر آباد موٹروے کی لمبائی 306 کلومیٹرہوگی۔6 رویہ اس موٹروے پر 14 انٹرچینج،دریائے سندھ پر بڑا پل،6 فلائی اوورز،10 سروس ایریاز اور12 ریسٹ ایریاز تعمیر کئے جائیں گے۔انٹیلی جینٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کے ساتھ اس منصوبے کو 30 ماہ میں مکمل کرنے کا منصوبہ ہے اور اس پر لاگت کا اندازہ تقریباً190،ارب روپے ہے۔سکھر۔ حیدر آباد موٹروے کی تکمیل سے پشاور اور کراچی کے درمیان موٹروے کی تعمیر کا خواب حقیقت میں بدل جائے گا اور پشاور اور کراچی کے درمیان سفری اوقات 2  دنوں سے کم ہوکر16 گھنٹے ہوجائیں گے۔واضح رہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے شمالاً جنوباً جدید موٹروے سسٹم کے قیام کیلئے پشاور۔کراچی موٹروے کا منصوبہ شروع کیا،جس کا مقصد کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں تک تیز رفتار ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کرنا ہے،تاکہ چین،افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو صحیح معنوں میں عملی شکل دی جاسکے۔کراچی۔پشاور موٹروے کی زیادہ تر الائنمنٹ قومی شاہراہ (N-5) کے متوازی ہے جو ملک کے بڑے شہروں اور تجارتی مراکز سے منسلک ہے۔پشاور۔کراچی موٹروے کے تمام سیکشن ماسوائے حیدر آباد۔سکھر موٹروے،کے مکمل ہوچکے ہیں،جس پر جلد از جلد کام کے آغاز کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔اسی طرح69کلومیٹر سیالکوٹ۔ کھاریاں موٹر وے بھی پی پی پی کے تحت مکمل کی جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت نئی 4 رویہ  موٹر وے تعمیر کی جائے گی اور اس کے لئے اشتہار اخبار میں شائع ہو چکا ہے جبکہ Bid جمع کرانے کی آ خری تاریخ 30اپریل2021ہے۔ 129 کلومیٹر طویل بلکسر۔ میانوالی سڑک کو  دوہرا کرنے کا منصوبہ بھی پی پی پی کی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا۔ اور موجودہ  دو رویہ سڑک کو 4 لین پر مشتمل ہائی وے میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس وقت موجودہ سڑک پر مرمت کا کام جاری ہے تاکہ ٹریفک کو ہر ممکن حد تک سہولت فراہم ہو سکے۔ اسی سڑک کو آگے میانوالی سے مظفر گڑھ تک دوہرا کیا جائے گا جس کی لمبائی 286کلومیٹر ہے۔ کھاریاں سے راولپنڈی تک نئی115 کلومیٹر موٹر وے کی تعمیر بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اسلام آباد کے قریب بارہ کہو کے مقام پرN-75پر فلائی اوور کی تعمیر کا منصوبہ بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر زیر غور ہے، جس سے بارہ کہو میں ٹریفک کے رش کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس فلائی اوور کی لمبائی4 کلومیٹر ہو گی۔ لاہور کے قریب N-5پر شاہدرہ فلائی اوور کی تعمیر کا منصوبہ این ایچ اے کی ترجیحات میں شامل ہے۔ 7کلومیٹر طویل یہ فلائی اوور شاہدرہ کے مقام پر جی ٹی روڈ پر ٹریفک کو منضبط کرنے میں بہت معاون ثابت ہو گا  اور ٹریفک کی روانی کے باعث وقت اور پٹرول  کی خاطر خواہ بچت ہو گی۔سندھ میں لیاری  بالائی فریٹ کاریڈور(Lyari Elevated Freight Corridor) کی تعمیر کا  اہم منصوبہ بھی اسی پروگرام کا حصہ بنایا گیا ہے جس کے تحت 20 کلومیٹر طویل نئی بالائی ایکسپریس وے تعمیر کی جائے گی، جو کراچی بندرگاہ کو کراچی۔حیدر آ باد موٹروے (M-9) کے ساتھ ملائے گی،جس سے بندرہ گاہ کا ملک کے تمام حصوں کے ساتھ رابطہ آسان ہوجائے گا۔ کراچی۔ کوئٹہ۔ چمن قومی شاہراہN-25 کو بھی پی پی پی  کی بنیاد پر دوہرا کرنے کا پلان ہے۔ 790کلومیٹر طویل اس منصوبہ کے تحت موجودہ دولین پر مشتمل سڑک کو چارلین ہائی وے میں تبدیل کیا جائے گا، جس سے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت میسر ہو گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔موٹرویز اور قومی شاہرات کی تعمیر و توسیع کے منصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پرائیویٹ سیکٹر کو تعمیری شعبہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا اور ملک میں سڑکوں کی تعمیر سہل اور تیز تر ہوگی۔

مزیدخبریں