عید کے روز کسی سے بھی عداوت کیسی!

May 03, 2022

آج عید ہے تو عید کا سلام قبول کیجئے۔ عید کا سلام سب کے لیے ہے۔ یہ سلام دل سے ہے اور محبتوں کی تمام تر گہرا ئیوں کے ساتھ تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ عید ا لفطر ہمیشہ سے دل و دماغ میں سرشا ری۔ اُمنگ، ولولہ، جو ش اور رومانس کو پیدا کرتی ہے۔ عید الفطر پر الصبح اٹھنے کا منظر ہی دلفریب ہو تا ہے۔ چا ند رات کو کپڑے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ میوہ جات تیار کر لیے جاتے ہیں اور مہندیاں بھی لگ جاتی ہیں۔ صبح کو مر د نئے ملبوسات زیب تن کر کے خوشبوئیں لگا کر اور سر پر ٹوپیاں رکھ کے عید گاہ اور مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ خوا تین جلدی جلدی شیر خورمہ تیار کرتی ہیں۔ نئی بیڈ شیٹس بچھائی جاتی ہیں۔ خو د جھلملاتے کپڑے پہنتی ہیں۔ زیورات کے ساتھ جلدی جلدی اپنی آرا ئش و زیبا ئش کر تی ہیں تاکہ جب باپ بھائی شوہر بیٹے گھر آئیں تو اُن سے عیدیاں وصول کر سکیں۔ یہ سارے منظر ہم اپنے بچپن سے ہر سال دیکھتے آ رہے ہیں۔ ایک عجیب سی خو شی، مٹھاس اور رومان فضا میں گھُلتا دیکھا ہے۔ پھر سارا دن رشتے داروں اور محلے داروں میں سویاں با نٹنے، عید کا سلام کرنے اور عیدیاں وصول کرنے میں گزر جاتا تھا۔ عید پر خصوصی تیاریوں پر تعریفیں بھی وصول ہو تیں تھیں اور گھر میں آنے جانے ، ملنے جُلنے کا سلسلہ رات گئے تک چلتا۔ عید کے دن عموماّ بہترین قسم کے انوا ع و اقسام کے کھانے بنتے۔ گلے ملنے اور ہنسنے بو لنے، کھانے پینے میں دن نکل جاتا تھا۔364 دن کے بعد یہ دن نصیب ہو تا اور انتہائی پُر مسرت، پُرجوش اور پُرکیف دن ہو تا لیکن جدید زندگی نے جیسے عید کی سا ری خو شیاں ہی چھین لی ہیں۔ نہ اب عید کارڈ دینے کا رواج ہے۔ نہ مبارک باد، نہ تحفے تحا ئف اورعیدیاں دینے کی رسمیں رہیں۔ نہ عید پر جوش و خروش سے خو بصورت پیر ہن پہننے کا جذبہ با قی رہا۔ اب تو بے شمار گھروں میں سویاں بنانے کی رسم بھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ شیر خورمے کی جگہ اب کیک مٹھائیاں آئسکریم اور جدید ترین سویٹس نے لے لی ہے۔ جوعیدیں ہم نے اپنے بچپن میں گزا ری تھیں۔ آج ہم اُن کے لیے ترس گئے ہیں۔ عید کی خوشی، وہ سجیلا پن، وہ جوش و جذبہ نا پید ہی ہو گیا ہے۔ آج ہمارے پاس دنیا جہان کی نعمتیں ہیں۔ بہترین بیش قیمت ملبوسات ہیں، انواع و اقسام کے کھانے ہیں۔ بہترین گھر اور سہولتیں ہیں مگر خوشی کا وہ رنگ نہیں ہے جو روح میں جلترنگ بکھیر دیتی تھیں۔ جب عید کارڈ ملنے پر دل میں پھول کھِل اٹھتے تھے۔ جب صرف پلائو کباب اور میٹھا کھانے سے لگتا تھا کہ گھر میں من و سلویٰ اُتر آیا اور جب دس پچا س یا سو روپے ملنے پر خو شی سے ناچنے لگتے تھے مگر اکیسویں صدی کا آ غاز کچھ اچھا نہیں ہوا۔ سا رے رشتے روبو ٹ بن گئے۔ سا رے جذبے کاروباری ہو گئے۔ سار ی محبتیںبنا وٹی ہو گئیں۔ ہر چیز مفا دات کے تا بع ہو گئی۔ جدید زندگی نے سچا ئیوں، محبتوں، چاہتوں، قربانیوں کو نگِل لیا۔ با قی کی رہی سہی کسر نئے پاکستان نے نکال دی۔ ہم پاکستانی روا یات کے امین تھے۔ اپنی مشرقی ثقا فت پر نازاں اور شرم و حیا لحاظ مروت کے پروردہ۔ نفرت اور دشمنی میں بھی اخلاقیات اور تہذیب کی پاسداری ہمارا اثا ثہ تھی لیکن نئے پاکستان نے سب سے زیادہ نئی نسل کو تباہ برباد کر دیا۔ ہم نے ان چار سالوں میں مادر پدر آزادی دیکھی۔ ماں بہن کی گا لیاں، بزرگوں کی تو ہین، بچوں سے بدسلوکی، عورتوں کی بے حرمتی اور بد زبانی کی ایسی مثالیں دیکھی کہ کان پکڑ لیے۔ اب صورتحال یہ کہ ہم ایسے پاکستان میں سا نسیں لے رہے ہیں جہاں ہر وقت ڈر لگتا ہے کہ کو ئی کھڑا ہو کر کو ئی ایسی بات نہ کر دے جس سے دل کی کرچیاں ہو جائیں اور عزت کی دھجیاں اُڑنے کا اندیشہ ہو۔ ایسے نا پسندیدہ نا مناسب ا ور بیہود ہ کلچر کو فروغ دیا گیا جو اس سے پہلے کسی نہ دیکھا نہ سنا تھا۔ اگر عمران خان کے بقول امریکہ اُسے ہٹانا چا ہتا تھا تو ملک و قوم کے مفا د میں خود استعفیٰ دیکر ملک و قوم کے بچا لیتے۔ جب اپوزیشن نے بھی ما ئنس ون کا فا رمولہ پیش کیا تو عمران خان کو ملک و قوم کی بہتری اور فلاح کے لیے اپنی ذات کو منہا کر لینا چا ہیے تھا جبکہ عمران خان سے بڑا لیڈر تو شاہ محمود قریشی تھے۔ اسد عمر جیسا بہترین آدمی تھااسکے علاوہ بھی کئی دوسرے تھے۔ عمران خان پارٹی کے چیئرمین رہتے اور پارٹی بھی بر سرِاقتدار رہتی مگر خود پرستی اور خود پسندی آڑے آ گئی۔ ریا ستِ مدینہ کا دعویدار مدینے میں جو کچھ کروا بیٹھا، وہ تا ریخ میں ایک سیا ہ باب بن گیا ہے۔ اب چاند رات کو احتجاج کی کال دی گئی ہے۔ عید ا لفطر ایک مذہبی تہوار ہے جس پر سیاست کھیلی جا رہی ہے جو ایک شرمناک فعل ہے۔ رمضان اور عید کا موقع عبا دات، درگزر اور فیاضی کے لیے وقف ہے۔ جبکہ عید پر لوگ رنجشیں نفرتیں کدورتیں بُھلا کر ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے اور گلے ملتے ہیں۔ خدا کے کے لیے سچے مسلمان بنیں، نام نہاد لیڈروں کے پیچھے اپنی عا قبت نہ خرا ب کریں۔ 

مزیدخبریں