نئے انتخابات کیلئے بین الجماعتی مذاکرات

May 03, 2022

نبی اکرم ﷺ نے معاشرے کی کایہ پلٹنے کا انقلابی طریقہ اپنایا، پورے نظام حیات اور نظامِ حکومت کواللہ تعالیٰ کے ازلی و ابدی احکامات کے مطابق بنایا اورپھر مدینہ منورہ میں ایک عظیم الشان ’’اسلامی جمہوری فلاحی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی جو خلافتِ راشدہ کے سنہرے دور میں پھلی پھولی اور رفتہ رفتہ اس کا دائرہ اثر براعظم ایشیائ، یورپ اور افریقہ تک وسیع ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کا مقصد بھی نبی اکرم ﷺاور خلافتِ راشدہ کے دور کی اسلامی جمہوری اورفلاحی ریاست کا احیاء تھا جس میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو، نبی کریم ﷺ کی لائی گئی شریعت نافذ ہو اور ہر شہری کو بلا امتیازبنیادی انسانی ، معاشی، سیاسی ،حقوق اور آزادیاں حاصل ہوں۔ 
علامہ محمد اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے افکار کیمطابق پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بننا تھا مگر سِول اور فوجی حکمرانوں نے اس میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق معطل کیے، شہری آزادیاں پامال کی گئیں۔پہلا اور دوسرا آئین منسوخ کیا گیا۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جبری حکومتیں ، صدارتی نظام اور مارشل لاء نافذ ہوئیاور ملک دو لخت ہوا۔1973ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا متفقہ آئین منظور ہونے کے بعد بھی سول اور فوجی حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی اور ملک کواسلامی ،جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے سے گریز کیا۔ 1977ء میں ملک میں تیسرا مارشل لاء لگایا گیااور1985ء میں مارشل لاء کی چھتری تلے غیر جماعتی قومی اسمبلی وجود میں لائی گئی جو زیادہ دیر برداشت نہ ہوئی۔1988ء سے 1999ء تک اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے دو جماعتیں یکے بعد دیگرے دو دو مرتبہ اقتدار میں لائی گئیں۔12اکتوبر 1999ء کو چوتھی مرتبہ فوجی جنتا نے شب خون ماراجس نے بالآخر 2002ء میں کنگز پارٹی کی حکومت مسلط کردی۔ 2008ء میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید و نصرت سے پیپلز پارٹی اور 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں لائی گئیں۔اس دوران بیرون ملک فنڈنگ اورخفیہ وسائل سے تحریک انصاف اور عمران خان کو مسیحا بنا کر میڈیا پر پیش کیا گیا۔مدینہ کی اسلامی ریاست،تبدیلی اور نئے پاکستان کے نام پر نوجوانوں اور متوسط طبقہ کو مسحور کیا گیا۔بالآخر 2018ء میں پوری ریاستی قوت کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت مسلط کردی گئی جس نے اپنے 44ماہ کے دورِ اقتدار میں اپنی نااہلیت، ناتجربہ کاری ،بدعنوانی اور بدترین حکمرانی سے پاکستان کو بدترین اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں سے دوچار کردیا۔ حکومت میں بیٹھیبدعنوان عناصر اور مافیاز کے بڑے بڑے کارٹیلز نے اربوں کھربوں روپے کے ڈاکے مارے۔آٹا،چینی،کھاد،پیٹرول اور گیس کے بحرانوں نے عوام کا جینا اجیرن کردیااورپاکستان کا ہرشہری قرضدار اور مہنگائی کے بوجھ تلے دب گیا۔ قومی معیشت کاسقوط ہوا اوربنک دولت پاکستان عملاً آئی ایم ایف کے شکنجے میں دے دیا گیا۔اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر کے میاں شہباز شریف کی قیادت میں اپنی حکومت قائم کرلی جس کے ساتھ ہی تحریک انصاف نے مبینہ امریکہ سازش اور دھمکی کو اپنی حکومت کے خاتمے کا سبب گرداننے کا ڈرامہ شروع کر دیا اورسوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اور سلامتی کے اداروں پرتابڑ توڑ حملے کر کے ملک میں سیاسی تقسیم کو گہرا کردیا۔اورایک ایسا سیاسی فرقہ بنالیا جو کسی دوسری رائے کا احترام تو کجا سْننے کے لئے بھی تیار نہیں۔اچھا ہوتا اگر سپریم کورٹ عدالتی کمیشن قائم کرکے مبینہ امریکی سازش اور دھمکی کا پردہ چاک کر دیتی مگر تحریک انصاف نے اب اپنی توپوں کا رْخ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے اور فار ن فنڈنگ کیس میں اپنے خلاف ممکنہ فیصلے کے آنے سے پہلے ہی اِسے متنازعہ قرار دے کرچیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کرکے ایک طرف آئین اور سیاسی وانتخابی نظام کو عملاً چیلنج کرکے فوری انتخابات کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری طرف صدرِ پاکستان عارف علوی کے نومنتخب وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لینے سے انکار اور نئے گورنر پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار نے کئی قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آصف زرداری نے تحریک عدم اعتماد سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے فوری بعد نئے انتخابات کروائے جائیں گے مگر اب لگتا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال کر اتحادیوں میں وزارتیں بانٹ رہے ہیں۔جبکہ عالمی طاقتوں اور ساہوکاروں کی حمایت اورمددلینے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں اور انتخابی اصلاحات اور فوری انتخابات کی وہ بات ہی نہیں کرتے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہباز شریف حکومت میں آتے ہی الیکشن کمیشن مکمل کرتے ، انتخابی اصلاحات کے لئے اقدامات شروع کرتے اور الیکشن شیڈول کا اعلان کر تے لیکن اْنہوں نے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح پر زور دینا شروع کر دیاہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ 2018ء میں عوامی مینڈیٹ چوری ہوا تھا۔ اْن ہی کا مطالبہ تھا کہ تازہ انتخابات کروائے جائیں۔ اب جب قومی اسمبلی کے تقریباً آدھے ارکان مستعفی ہو چکے ہیں،کیا اْنہیں اچھا لگتا ہے کہ وہ بلاشرکتِ غیرے کاروبارِ مملکت چلائیں۔ مقننہ کی گاڑی حکومت اور اپوزیشن کے دو پہیوں پر چلتی ہے۔ پارلیمانی نظام ہٹلر کی پارلیمنٹ اور سودیت یونین کی پولٹ
 بیورو کی طرز پر نہیں چلایا جاسکتا۔ حقیقی جمہوریت میں قومی اسمبلی میں ہونے والی قانونی سازی جائز اورمتفقہ ہوتی ہے اس کے لئے حکومت کو ایک طرف قانون سازی سے گریز کرنا ہوگا اور جلد از جلد نئے انتخابات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ پولرائزیشن، سیاسی کشمکش اور غیر یقینی صورتحال کے جلد خاتمہ کے لئے شہباز حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لئے بین الجماعتی مذاکرات اور نئے قومی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنا چاہئے۔ جتنی جلدی وہ یہ دونوں کام کریں گے اچھا ہو گا ورنہ سیاسی تقسیم انارکی میں تبدیل ہوجائے گی جس کا سارا نقصان ریاست ،جمہوریت اورسیاسی جماعتوں کو اْٹھانا پڑے گا۔

مزیدخبریں