رحمتوں اور بخششوں کا مبارک ماہِ صیام ہم سے الوداع ہو گیا۔ اس ماہِ مبارک کے آخری عشرے میں ’شبِ قدر‘ کی تلاش میں ہم مسلمانوں نے جس خضوع و خشوع سے صبح و شام دعائیں مانگیں، اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے توبہ کیلئے جس طرح اپنے رب کے سامنے سر جھکائے، ربِ عالم سے راتوں کو اٹھ اٹھ کر جس طرح التجائیں کیں، یہی واحد طریقہ ہے اپنے رب کو منانے کا۔ حضور اکرم ﷺ کا امتی ہونے کے ناطے ہماری یہ تمام تر محنت کہاں تک کامیاب رہی، فیصلہ اب اس ربِ کریم کو کرنا ہے۔ خلوص دل سے دعائیں مانگنے والے اپنے گنہگار بندوں کو وہ کبھی مایوس نہیں کرتا، رحیم و کریم جو ٹھہرا۔
یہ اس کا کرم اور جود و سخا ہے کہ برطانیہ میں بھی اس بار 30 روزے مکمل ہونے کے بعد گزشتہ روز عیدالفطر منائی گئی۔ دل کو ایک کھٹکا سا ضرور لگا رہا کیونکہ برطانیہ میں مسلمانوں کی اکثریت نے 2 اپریل کو اور بعض مسالک نے 3 اپریل سے پہلے روزے کا آغا زکیا۔ تاہم اس مالک کل کا کرم و عنایت کہ اس مرتبہ مجھے اپنی گوری کولیگ کے سامنے سرخرو ہونا پڑا۔ پٹریشا ہر سال یہ طعنہ دینے کیلئے کہ برطانوی آبزرویٹری کی سہولت کے باوجود آپ لوگ مطلع پر چاند کی پیدائش کا تعین آخر کیوں نہیں کرتے۔ ایک چاند اور عیدیں دو! یہ پریکٹس کیوں جاری رکھے ہوئے ہو؟ اس موضوع پر اچھی بحث میں الجھا کر اکثر و بیشتر مجھ سے وہ یہ سوال ضرور پوچھتی ہے۔ اس بیچاری کی سوچ پر ترس مجھے اس لیے بھی آتا ہے کہ اس کے فرقے میں روزے کا تصور ہی موجود نہیں حالانکہ عیسائیت کے 8 فرقوں میں بیشتر فرقے طویل مدت روزے کے پیروکار ہیں۔ Barnabas کی لکھی انجیل مقدس اور Old Testament پر بھی اسے چونکہ دسترس حاصل نہیں اس لیے اپنی مذہبی گفتگو کا زیادہ تر زور وہ مسلمانوں کو ایک ہی دن عیدالفطر منانے پر صرف کرتے ہوئے اپنی انگریزی کی رفتار مزید تیز کر دیتی ہے۔ مجبوراً مجھے اسے پھر ’کلیسائے انگلستان‘ کے اس چمن میں لے جانا پڑتا ہے جہاں کانٹے پھولوں کو متاثر کررہے ہیں۔
اللہ کا شکر کہ اس مرتبہ عیدالفطر پر ہونیوالی ہماری گفتگو بغیر طوالت ’ہیپی عید‘ پر اختتام پذیر ہوگئی۔ میں نے اسے جب یہ بتایا کہ برطانیہ میں مقیم 30 لاکھ مسلمانوں میں سے 11 لاکھ پاکستانی مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے اپنی کچھ مجبوریاں بھی ہیں، کچھ فقہی مسائل بھی ہیں جنہیں قوت برداشت اور افہام و تفہیم سے بالعموم حل بھی کرلیا جاتا ہے تو اسے حیرانی ہوئی۔ اسے یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ برطانیہ میں 30 لاکھ سے زیادہ مسلمان بھی برطانوی معیشت میں اہم ترین رول ادا کررہے ہیں۔ بہرحال، عید آئی اور خوشیوں کا یہ تہوار گزر گیا مگر خوشی کے اس موقع پر برطانوی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو مغموم پایا۔ درحبیبؐ اور مسجد نبویؐ کے بیرونی احاطے میں جو کچھ ہوا وہ کسی طور بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ مسجد نبوی ؐ جس کی حدود میں ایک نماز کی ادائیگی پر 50 ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے، مدینہ ایسا متبرک شہر جسے نبی اکرمؐ نے خصوصی طور پر اپنے رب سے مانگا، جہاں احترام میں چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی بھی بڑا جرم تصور ہوتی ہے، وہ مسجد نبویؐ جس کا احترام اور حرمت ہر مسلمان پر فرض کردی گئی، وہ متبرک شہر جس کے راستوں پر فرشتے ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں، مگر افسوس! دیار نبیؐ میں ماہِ صیام کے دوران ادائیگی عمرہ کیلئے گئے بعض پاکستانی مسلمانوں نے وہ کچھ کر دکھایا جو ہرگز ہونا نہیں چاہیے تھا۔
اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ جس وقت یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا میرے کچھ چاہنے والے بھی اس مقام پر موجود تھے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میں نے ان سے دست بدستہ درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’وی لاگ‘ بنائیں اور نہ ہی تصاویر فارورڈ کریں کہ غیراسلامی دنیا میں اس سے ہمارے پاکستان کی جگ ہنسائی کا پہلو مزید نمایاں ہوگا۔ اپنی تمام تر توجہ وہ ادائیگی عمرہ پر مرکوز رکھیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے بتایا کہ یہ ناخوشگوار واقعہ مسجد نبویؐ کے اندرونی حصے میں نہیں بلکہ مسجد نبویؐ کے باہر کے اس حصے میں رونما ہوا جہاں جوتے پہننے اور شاپنگ کی اجازت ہے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف کی شٹل وہاں سے گزر رہی تھی کہ بعض پاکستانیوں نے وزیراعظم اور ان کے وفد میں شامل اراکین کو دیکھتے ہی نعرے بازی شروع کر دی اور اس کے بعد عازمین عمرہ کی بھاری تعداد بھی اس افسوسناک واقعہ میں شامل ہو گئی۔ دھینگا مشتی کی نوبت بھی آئی، دنیا بھر سے آئے عازمین کیلئے بھی یہ واقعہ حیرت سے کم نہ تھا کہ سعودی تاریخ میں پاکستانیوں نے پہلی مرتبہ اس طرح کے منفی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ بعض پاکستانیوں نے اپنے سیاسی جذبات کا اظہار کیوں کیا، دکھ اس بات کا ہے کہ اپنے سیاسی چسکے کیلئے انہوں نے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ کسی بھی طور پر درست نہیں تھا۔
انیل مسرت کا شمار سابق وزیراعظم عمران خان کے بااعتماد دوستوں میں ہوتا ہے، سوچا کیوں نہ ان سے اصل حقائق معلوم کیے جائیں۔ انہیں فون کیا تو انہوں نے فوراً اٹھا لیا۔ بغیر کسی لگی لپٹی انہوں ے واضح کر دیا کہ کسی گہری سازش کے تحت انہیں اس واقعہ میں ملوث کیا گیا ہے۔ آپ واقعہ میں موجود تھے، میں نے پوچھا۔ بالکل نہیں! نورانی بھائی، میں تو مسجد نبویؐ کے برآمدے میں اپنے بچوں اور والدہ محترمہ کے ساتھ بیٹھا تھا اور عبادت میں مصروف تھا۔ حضور اکرم ؐ کے در پر ایسی شرمناک حرکت کے بارے میں تو سوچا تک نہیں جا سکتا۔ میرا اور میرے بچوں کا واحد مقصد ادائیگی عمرہ تھا۔ میرے بارے میں یہ سب کچھ منصوبے کے تحت پھیلایا گیا ہے۔ اچھا کیا کہ آپ نے مجھے فون کیا۔ انیل مسرت نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات دیکھتے ہوئے مجھ سمیت برطانیہ میں بسنے والے گیارہ لاکھ پاکستانی اپنے ملکی سیاسی حالات کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں۔ ہے کوئی ایسا سیاسی رہنما جو ان کی تشویش دور کرسکے؟