اچھی خبریں بھی مل رہی ہیں اور ایسی اطلاعات بھی سامنے آجاتی ہیں جو مزے کو کرکرا کر دیتی ہیںمگر یہی زندگی بھی ہے ،22کروڑ کی آبادی کا ملک ہے ہر روز کچھ نیا ہو نا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے . مارچ اور اپریل کو تو جیسے واقعات کے پر لگ گئے تھے ،تحریک عدم اعتماد کا آنا بہت بڑی سیاسی پیشرفت تھی ،آئین میں اس کا جواز اور طریقہ کار طے کر دیا گیا ہے ،یہ پیش ہو سکتی ہے اور نمبر گیم پر منحصر ہوتی ہے ،جب یہ پیش کی گئی تھی تو سیدھا سا طریقہ یہ تھا کہ اس وقت کی حکومت اسے سیاسی اقدام کے طور پر لیتی اور اس کا مقابلہ سیاسی دائو پیچ سے کرتی ،مگر چونکہ سیاست خام اور پرچار کئے جانے والے نظریات اور عمل میں کوئی تال میل نہیں تھا ااس لئے سامنا بھی غیر سیاسی انداز میں کیا گیا جس کا شاخسانہ رولنگ ،اسمبلی کی تحلیل اور خط تھا ،رولنگ مسترد ہوئی ،خط متنازعہ اور اسمبلی آج بھی چل رہی ہے،خاک نشیں جو اس وقت منظر نامے کوبنتا دیکھ رہا تھا اور ان میں سے بہت سے واقعات جنم لینے سے پہلے بھی اس کے علم میں تھے ،جیسا کہ رولنگ والا قصہ ہے ،اس وقت کی حکومت کوقانونی مشاورت فراہم کرنے کا بھاری وزن اپنے نازک کندھوںپر اٹھانے والے ایک مشیر خاص ملے ،کہنے لگے دیکھتے جائیں ہم اس تحریک عدم اعتمادکا کیاکرتے ہیں ،آپشن موجود ہیں،یعنی وہ کہہ رہے تھے کہ ووٹنگ نہیں ہو گی اس سے بچنے کا کوئی اور راستہ نکال لیا گیا ہے جب وہ چلے گئے تو ذہن میں جو پہلی بات آئی کہ یہ مشیر اپنے کرم فرماوں کو آرٹیکل چھ کی جانب دھکیل رہے ہیں،اب وہ تو غائب ہیں اور ان کو تلاش کرنا پڑے گا ،مگر جب اس معاملہ کی چھان بین آگے بڑھے گی تو ممکن نہیں کہ ان کا رول چھپا رہ سکے ،ہر ایشو میں یا معرکہ میں ایک حتمی لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر اس کو سمجھ
لیا جائییا بروقت استعمال کر لیا جائے تو اس نقصان کو فائدے میں بدلا جا سکتا ہے ،جب اسلام آباد میں جلسہ ہواتھا ،اور خط لہرایا تھا تو اس وقت اگر اس کے ساتھ ہی منصب کو ٹھوکر مارنے اور پبلک میں جانے کا علان ہو جاتا تو وہ ایک ایسی لہر کو پیدا کر سکتا تھا جو تنزل کو مختصر مدت میں پلٹا دیتی آج جو قانون اور آئین کی شقوں کی وجہ سے سزا کے جو چیلنجز وہ بھی نہ ہوتے ،اس کو ہار کر جیتنا کہتے ہیں ،مگر سوچ کا انداز تو اپنا اپناہی ہوتا ہے ،آنے والے وقت میں جو مسائل اورخطرات ہیں ان کو سمجھنا چاہئے ،وقت دھرے دھیرے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے اور نئی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج معاشی ہی ہے ،ملک کو آئندہ چند ماہ میں چھ ارب ڈالر کی ادئیگیاں کرنا ہیں ،ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت بہت اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں،اب اس بارے میںاچھی خبر یہ ہے کہ نئی حکومت کے سربراہ نے وفد کے ہمراہ سعودی عرب اور یو اے ای کا پہلا دورہ کیا ہے،اس وفد کی خاص بات یہ تھی کہ پی پی پی کے سربلاول بھٹو زرداری ملک کے وزیر خارجہ بن گئے اور وہ بھی اس وفد میں شامل تھے ،اس دورے کے مکمل ہونے کے بعد جو خبریں سامنے آئی ہیں وہ اطمینان بخش ہے کہ سعودی عرب تین طرح سے پاکستان کی مدد کرئے گا ،پاکستان کے پاس پہلے ہے سعودی عرب کے تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ موجود ہیں ،ان کی ’پارکنگ‘‘کی معیاد میں توسیع کر دی جائے گی ،ادھار تیل کے لئے قرض کی حد میں اضافہ کیا جائے گا اور مذیددو عرب ڈالر پاکستان کو زرمبادلہ میں رکھنے کے لئے دئے جائیں گے ،اس سے ادئیگی کے توازن پر اچھا اثر پڑے گا ،اس کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ اس ماہ کے وسط تک بات چیت ہونے والی ہے جس میں بجٹ کے اہداف بھی ذیرغور آئیں گے،یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بجٹ مشکل ہوگا کیونکہ حکومت کے پاس رییلیف دینے کی گنجائش کچھ ذیادہ نہیں ہے ،انکم ٹیکس کا شعبہ ہمیشہ ہی سے متنازعہ رہا ہے ،اس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس شعبہ کی نااہلی کی وجہ سے ریونیو کا بہت سا حصہ ملک کو مل نہیں پاتا ،یہ بات حیران کن اور صدمہ کا باعث ہے کہ پرسنل انکم ٹیکس کی مد میں صرف115ارب روپے سالانہ جمع کئے جاتے ہیں،اس مین کائی شک نہیں ہے کہ پرسنل انکم یکس میں اصلاحات کی ضرورت ہے اس ملک میں عام رکشہ ڈرائیور ،گھریلو ملازم جو آمدن کے بہت ہی نچلے درجہ میں آتے ہیں اپنی یوٹیلٹیز پر وودھ ہولڈنگ ٹیکس کی شکل میں جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ اس ملک کے بہت سے بالائی طبقہ کے مقابلہ میں ذیادہ ہے ،صرف تنخواہ دار طبقہ اپنا ٹیکس درست ادا کر رہا ہے باقی طبقات میں اس ٹیکس کی چوری اور ہیرا پھیری بہت ذیادہ ہے ،اس میں مورد الزام ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ہی کو ٹھرایا جائے گا ،اب کو آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہونے جا رہی ہے اس میں پرسنل انکم ٹیکس کاا یشو خاص طور پر موضوع بننے جا رہا ہے ،آئی ایف چاہتا ہے کہ اس مد میںریونیو کو کم از کم دوگنا کیا جائے ،یہ مطالبہ ان تنخواہ دار کے لئے پریشانی کا باعث ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے پسے ہوئے ہیں ،اس لئے حکومت کو بات چیت میں ان پسے ہوئے طبقات کا خیال رکھنا ہو گا ،چونکہ سیلب کم ہونا ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ انکم ٹیکس سے چھوٹ کی حد کو 12لاکھ روپے تک بڑھا دیا جائے تاکہ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدن رکھنے والے بگڑے معاشی حالات کا کچھ مقابلہ کر سکیں ،اس سے اوپر آمدن کے حامل افراد پر درجہ بہ درجہ بوجھ کو ڈالا جائے ،اصل چیز یہ ہے کہ ریاست کے لئے ضروری ہے کہ وہ ابنی بقا کا سامان خود پیدا کرئے ،ہر چند سال کے بعد بار بار معاشی بے چینی کا پیدا ہونا کوئی چھی علامت نہیں ہے ،اس لئے ریاست کے اداروں کی اصلاح کی جانب توجہ دینا ہو گی ،اس ملک میں اس وقت تک استحکام نہیں ہو سکتا جب تک بنیادی معاملات پر اتفاق رائے پید نہیں ہو جاتا اس جانب کسی کو تو کام کرنا چاہئے۔