امریکی مالیاتی نظام کے تسلط کا خاتمہ

May 03, 2023

غلام حیدر شیخ

 غلام حیدر شیخ
 1931ء میں عالمی بینکنگ میں شدید مالی بحران پیدا ہونے سے دنیا کامعاشی نظام متزلزل ہو گیا تھا ، اس مالیاتی بینکنگ کے بحران کے پیچھے امریکی حکمتِ عملی کار فرما تھی ، پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادی معاشی بحران کا شکار تھے امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کو بڑے پیمانے پر قرض دیئے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی اہمیت بڑھ گئی ، اس سے پیشتر بیسویں صدی کے  آغاز میں برطانیہ کی کرنسی پونڈ اسٹرلنگ بین الاقوامی طور پراہم ترین کرنسی مانی جاتی تھی، دوسری اور تیسری اہم ترین کرنسیوں میں جرمنی کی ’’مارک‘‘ اور فرانسیسی ’’فرانک‘‘ اہم ترین کرنسیاں  متصور کی جاتی تھیں ، اس دوران امریکہ نے بڑی تیزی سے اقتصادی ترقی کی۔ 
اس وقت کی سپر پاور برطانیہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر امریکہ کا مقروض تھا ، امریکہ اسی وقت کے انتظار میں تاک لگائے بیٹھا تھا اس نے قرضوں کی واپسی کے لئے برطانیہ پر زور دینا شروع کردیا ، لیکن جنگ نے برطانیہ کودیوالیہ کر دیا تھا ، اور اس نے قرضے کی ساری رقم اتحادیوں میں صر ف کر دی تھی ، اپنی معاشی ابتری کی صورتحال کے پیشِ نظر اتحادی قرض کی ادائیگی سے قاصر تھے ،عالمی سطح پر بینکوں کے دیئے ہوئے قرضوں کی واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا، قرضوں کے دبائو میں مقروض ممالک کے درمیان فاصلے جب بڑھنے لگے تو مصنوعات کی پیداوارکرنے والے ممالک نے مقامی کرنسیوں کی قدر گرا کر اپنی برآمدات میں اضافہ کیا اور درآمدات میں کمی کے رجحان کو تقویت دی جس سے اقتصادی افراتفری خطرناک حد کو چھو نے لگی، 1944ء میں امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں بریٹن ووڈز کے مقام پر 44 اتحادی ممالک کے 730 وفود عالمی معاشی اور اقتصادی امور کو طے کرنے کے لئے جمع ہوئے۔
تمام ممالک کے وفود نے متفقہ طور پر کرنسیوں کی متعین شرح تبادلہ کے باضابطہ نظام پر اتفاق کیا جسے امریکی ڈالر کے ذریعے منظم طور پر سونے کی ایک خاص مقدار کے برابر تسلیم کر لیا گیا، اس معاہدے کے بعد ڈالر نے ایک مضبوط کرنسی کے طور پر ابھرکر وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تجارت میں استعمال ہونے کے ساتھ باضابطہ طور پر عالمی معیشت میں اجارہ داری حاصل کر لی۔ 
 امر یکہ نے ڈالر کی اجارہ داری قائم کرنے کے بعد ڈالر کو ہتھیار کے طور پرحریف اور رقیب ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگاکر اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ،گذشتہ چند سالوں سے یورپ اورایشیائی ممالک امریکی ڈالر کے متبادل اپنی مقامی کرنسیوں میں دو طرفہ تجارت کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں ، ان ممالک کا مقصد ڈالر پر انحصار ختم کر کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا ہے ، ’’ کثیر قطبی دنیا ‘‘ میں امریکہ کے اتحادی ممالک برازیل اور جاپان نے حال ہی میں اپنی دو طرفہ کرنسی کی تجارت کو بڑھا کراس رجحان میں شمولیت اختیار کی ہے ، لہذا ملکوں کے مقامی کرنسی میں تجارت سے ڈالر کی اجارہ داری اورامریکی مالیاتی نظام کے تسلط کا خاتمہ ہونا کچھ بعیدنہیں۔  
ماہرین کے مطابق مستقبل میں کم ازکم ایشیاء افریقہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان بین الاقوامی تجارت میں ڈالر کی حکمرانی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے ، مہنگائی کا جو عالم آج ہمارے ملک پاکستان میں ہے ، ارجنٹائن میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی افراطِ زر میں تاریخی اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے تجاوز کر چکی تھی جبکہ 1989 ء میں ارجنٹائن کے حالات انتہائی خراب تھے کہ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں 3079 فیصد سالانہ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جب کہ 1990 ء  میں 2314 فیصد اضافہ ر یکارڈ ہونے کے بعد غربت کی سطح انتہا کو چھونے لگی تھی، اسی سال ارجنٹینا میں مہنگائی آج کے پاکستان کی طرح بے قابو ہو گئی تھی ،1991 ء میں ارجنٹائن کے وزیر معیشت نے مالیاتی اصلاحات کی مد میں مصنوعی ایکسچینج ریٹ کا قانون پارلیمنٹ سے پاس کر وا کر ’’ ارجنٹائنی پیسو ‘‘کی قدر امریکی ڈالر کے برابر لا کر معیشت میں گردش کرنے والے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پیسو کو مستحکم کیا ، اورارجنٹینا میں مہنگائی پر قابو پالیا گیا۔
رواں ماہ آسیان کے رکن ممالک نے مقامی تجارت کے لین دین میں کرنسی کا ایک نظام قائم کیا ہے جس کے تحت ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں تجارت کو فروغ دیا جائے گا ، یہ نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مختلف ممالک کی جانب سے دو طرفہ اور کثیر جانبہ طور پر ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی کے استعمال کا سمجھوتہ طے ہوا ہے، اس سے پیشتر سعودی عرب ، ایران، برازیل ، پاکستان روس اور چین سمیت متعدد علاقائی و غیر علاقائی ممالک نے دو جانبہ یا کثیر جانبہ طور پر ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں درآمدات اور برآمدات کی تجارت کرنے کا معاہدہ کیا، ان ممالک کا ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کا اقدام مقامی کرنسی کی قدر بڑھنے کا باعث بنا ہے۔
 بھارت روسی تیل ڈالر کے بجائے امارتی درہم میں خریدنے لگا ہے ملائشین وزیر اعظم کے مطابق ان کا ملک سرمایا کاری کے لئے ڈالر پر بھروسہ نہیں کر سکتا ، لہٰذا ملائشیا نے انڈین یونین بینک میں روپیہ اکائونٹ کھول کر ڈالر کے بغیر روپے میں تجارتی رویے کو ترجیح دی ہے ، چین کی کرنسی یو آن بین الاقوامی سطح پروسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی کرنسی ہے جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر کو تجارتی لحاظ سے پیچھے دھکیل دیاہے ،چین نے مارچ میں 48.4 فیصد جب کہ امریکی ڈالر نے 46.7 کی شرح سے ادائیگیاں کیں، مقامی کرنسی کی تجارت امریکی ڈالر کے غلبے کو چیلنج کررہی ہے۔

مزیدخبریں