عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
انسانی زندگی خوبصورت ہے لیکن اس کا خوبصورت ترین حصہ بچپن ہے۔ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ نرم و ملائم ہوتے ہیں اور بڑی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
رسول اللہ ؐ نے بچوں کے ساتھ محبت کی ایک بڑی ہی روشن مثال قائم کی۔ وہ اپنے نواسوں پر محبت نچھاور کیا کرتے تھے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق نبی اکرمؐ نے حضرت حسن ؐ کو بوسہ دیا۔ اْس وقت آپ ؐ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہؐ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اْن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپؐ نے اْس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اْس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (صحیح بخاری)
اگر والدین یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں میں کس قدر کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں۔ اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے ہیں تو یہی والدین کی کامیابی ہے۔ یوں بچے کامیابی یا ناکامی پرکھنے کا حقیقی پیمانہ ہیں۔ اس لیے والدین کو اپنے بچوں کو اپنے گھروں کے اندر بہتر ماحول کی تشکیل کے ذریعے اپنے بچوں کو نیک کردار اور ادب و آداب کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو اخلاق سکھانے کے لیے بلیک بورڈ، فلپ چارٹ یا ملٹی میڈیا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ والدین کے طور طریقے، عادات، عوامل اور الفاظ بچوں کے اذہان پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آج کل کوالٹی آف لائف بہتر بنانے کی دوڑ میں ماں اور باپ دنوں ہی گھر سے باہر ہیں۔ ایسے والدین بہت کم مثال بنتے ہیں جو گھر سے باہر معاملات خوش اسلوبی کیساتھ طے کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ گھر میں بچوں کی عمدہ تربیت میں بھی ان کا بنیادی کردار نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
گھر کا ماحول وہ واحد سب سے اہم ترین عنصر ہے جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ والدین بچوں کے پہلے معلمین ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اپنے والدین کی محبت اور شفقت سے بھرپور مطلوبہ گھریلو ماحول ملتا ہے۔
ہم ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہیں اور ٹیکنالوجی نے بچوں کی پرورش و تربیت سمیت زندگی کے ہر ایک شعبے میں اپنا حد سے زیادہ عمل دخل قائم کرلیا ہے۔ یوں والدین کے لیے بچے کی پرورش کی ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ انسان کا بچپن نونہالی، کنڈرگارٹن، پرائمری تعلیم، ٹین ایج وغیرہ جیسے مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر ایک مرحلے پر بچوں کو مختلف انداز میں دیکھ بھال اور پرورش درکار ہوتی ہے۔
نونہالی کے دنوں میں بچوں کو وبائی بیماریوں سے بچانا اور باقاعدگی کے ساتھ حفاظتی ٹیکے لگوانا ضروری ہوتا ہے۔ جب بچہ اسکول جانے لائق ہوجائے تو لازماً اسے ادب و آداب، اخلاقیات اور حسنِ عمل کی بنیادی تربیت فراہم کی جائے۔ والدین کو اپنے گھروں میں مذہبی اور روحانی ماحول تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں بدزبانی، لڑائی جھگڑے اور جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے۔ بچوں کو کھیلنے کے لیے کون سا کھلونا دینا ہے یہ فیصلہ کرتے ہوئے والدین کو کافی محتاط رہنا چاہیے۔آج کل کئی بچے کھلونا گن یا اسلحے سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بچوں کو اس قسم کے کھلونے نہ دئیے جائیں کیونکہ یہ بچوں میں جارحانہ ذہنیت اور جنگی جنون کے رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کھلونا گن سے کھیلنے والے بچوں کے رویوں میں تحمل مزاجی کی کمی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
جب بچہ ٹین ایج کی عمر کو پہنچتا ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس عمر میں بچہ اسکول، محلے اور معاشرے میں دوستیاں قائم کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی اس عمر میں ان کے دوست بن جائیں اور انہیں صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔
والدین گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے اور روازنہ نماز ساتھ پڑھنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ والدین کو پتہ ہو کہ ان کا بچہ کس قسم کے ہم عمر حلقے میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور بچے کی ہر دن کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بچوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ اس خطرے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔
ایک سنہری کہاوت ہے کہ نونہالوں سے پیار کیا جاتا ہے، اسکول جانے والے بچوں پر نظر رکھی جاتی ہے اور ٹین ایجر بچوں کے ساتھ دوستوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔