غلام نبی بھٹ
بھارت میں مودی سرکار کی آمد کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ بدترین تعصب برتا جا رہا ہے۔ اس سے بھارت کی تاریخ بھی محفوظ نہیں رہی۔ بھارتی انتہا پسند ہندو توا کے پیروکار بھارت میں مسلمانوں کے نام سے وابستہ ہر چیز کو مٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں اب تو انہوں نے ایسی مسلم شخصیات کو بھی ہندو سماج اور دھرم کا دشمن ثابت کرنا شروع کر دیا ہے جن کی حب الوطنی ہندوستان تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ان میں سب سے بڑی شخصیت شہر میسور سلطان فتح علی ٹیپو کی ہے جو 1750ء کو والی میسور حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد کی ساری زندگی ہندوستان میں گھس آنے والے غیر ملکی سامراجی طاقت برطانیہ (انگریزوں) کے خلاف لڑتے ہوئے بسر ہوئی اور یہی جذبہ حب الوطنی شہر میسور ٹیپو سلطان میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے حکومت سنبھالنے سے میدان جنگ میں شہادت تک ساری زندگی غیر ملکی حملہ آوروں سے لڑتے ہوئے بسر کی۔ اس کے باوجود آج بھارت کی مسلم دشمن حکومت اور اس کے زر خرید قلمکارو نام نہاد تاریخ دان انہیں بھی صرف اس لئے غیر کہتے ہیں کہ وہ مسلمان تھے۔ ورنہ ان کا خاندان میسور سے ہی تعلق تھا اور وہ ہندوستانی تھے۔ ان کی ساری زندگی انگریزوں سے اپنی سلطنت اور ہندوستان کی باقی ریاستوں کو بچانے میں صرف ہوئی۔ مگر افسوس جو انتہا پسند ان سے منسوب یادگاروں اور ان کے نام کو تاریخ سے نکالنا چاہتے تھے خود ان کے بڑوں نے اس وقت غیر ملکی آقاؤں کو خوش آمد کہا اور ان کی ٹیپو سلطان کے خلاف بھرپور مدد کی۔ تاریخ گواہ ہے خود بے شمار ہندو مورخین بتاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان اور ان کے والد مسلم و غیر مسلم رعایا میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ سب کو ذاتی اور مذہبی زندگی گزارنے کی اجازت تھی۔ میسور کے بے شمار مندر ٹیپو سلطان نے تعمیر کرائے۔ وہ باقاعدگی سے مندروں کو عطیات دیتے تھے۔ آج بی جے پی کے مسلم دشمن حکمران لاکھ کوشش کریں کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت اور ان کی حب الوطنی کو مشکوک بنایا جائے ایسا کرنے میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ٹیپو سلطان کی عظمت اور بہادری کی گواہی خود ان کے بدترین مخالف انگریز مورخین بھی دیتے ہیں۔ جنہوں نے ان کی لاش پر کھڑے ہو کر کہا تھا آج سے پورا ہندوستان ہمارا ہے۔ اب ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کے مزار پر ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ ان کا یوم شہادت مناتے ہیں۔ کہتے ہیں چاند پر تھوکا منہ پہ آتا ہے۔ سو بھارتی حکمران یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ٹیپو سلطان کا ذکر ان کی حب الوطنی اور شہادت کے ساتھ ساتھ سلطنت میسور میں کی جانے والی اصلاحات اور جنگی فنون میں ترقی کی داستانیں تاریخ سے نکال کر ان کی یاد مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر تاریخ کسی انتہا پسند غنڈے کی فرمائش پر مٹائی نہیں جا سکتی۔
4 مئی 1799ء ان کا یوم شہادت ہے جس دن یہ عظیم مرد مجاہد اس طرح سرنگاپٹم کے میدان جنگ میں شہید ہوا کہ انگریزنعش کے پاس جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ ٹیپو کی تلوار مرنے کے بعد اس کے ہاتھ میں تھی۔
آج بھی مسلمان ہی نہیں پورے بھارت میں رہنے والا جب حریت پسندی کی داستان رقم کرے گا تو ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ والا قول زریں ٹیپو سلطان سے ہی موسوم کرے گا۔ جب بھی انگریزی سامراج کے خلاف محب وطن سرفروشوں کا تذکرہ ہوگا تو ان میں شہر میسور کا ذکر سرفہرست ہوگا۔
ٹیپو سلطان قافلہ حریت کے وہ عظیم رہنما ہیں جنہوں نے تمام ترسازشی عناصر میر جعفروں اور میر صادقوں کے باوجود حریت کی وہ شمع روشن کی کہ ان کا نام تا ابد تاریخ میں بہادری اور غیرت کی علامت بنا رہے گا اور اس عظیم شہید کی تلوار ہمیشہ دشمنوں کے سینے چھیدتی رہے گی۔ مودی امیت شاہ اور آدیتہ یوگی جیسے کئی مسخرے آئے اور چلے گئے۔ ان کا نام و نشان نہیں ملتا مگر تاریخ ہندوستان میں ٹیپو سلطان کا نام آج بھی جگمگا رہا ہے۔ کروڑوں محب وطن ہندوستان اسے سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انتہا پسندوں کی طرف سے ان کے بارے میں پھیلائے جھوٹے قصے اور ان کی صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر مخالفت تاریخی بددیانتی کہلائے گی۔ آنے والے مؤرخ بھی اسے انتہا پسندوں کی مکروہ حرکت قرار دیتے ہوئے شہر میسور کی عظمت کو سلام عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔