سروَرِ کائنات، رحمت للعالمین، ختم رسّل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مقدس، ان کے اسوۂ حسنہ، ان پر نزولِ اسلام و قرآن، تبلیغ و فروغ اسلام کی جہد مسلسل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قدم قدم پر پیش آنے وال کٹھنائیوں اور ان کی حیاتِ طیبہ کے ناتے اجاگر ہونے والے فلسفۂ حیات و ممات کا احاطہ کرتی ہزاروں کتب اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ بے شک جید علماء کرام، مفکرینِ اسلام، فقہاء اور دینی سکالرز نے حضرت نبیٔ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت ، شانِ رسالت مآبؐ اور ان کی حیاتِ مبارکہ پر اپنی تصانیف اور تحقیقی کتب میں ہر پہلو سے روشنی ڈالی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے زبان تھکتی ہے نہ قلم کی روانی میں کوئی فرق آتا ہے۔ بے شک رہتی دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر جاری و ساری رہے گا اور آپؐ کی امت نے آپؐ کا ہی دامن تھام کر سرخروئی کے ساتھ پل صراط عبور کرنا ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہی آپؐ کی امت پر رحم فرمانا ہے تو آپؐ کی تقدیس و ثناء پر مبنی تذکرۂ خیر کے لئے زبانیں گنگ کیونکر ہو سکتے ہیں۔ آج دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی زبانوں پر ہمہ وقت کلمۂ طیبہ کا ورد جاری رہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی تسبیح سے ماحول معطر رہتا ہے اور زمانے کو عافیت کی نوید ملتی ہے۔
بے شک ۔ بے شک
وہ دانائے سبل، ختم الرسّل مولائے کُل ، جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وی یٰسین ، وہی طٰہٰ
معروف صنعتکار محمد عبدالقیوم کی شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مرتب کردہ ضخیم کتاب ’’پیغمبر اسلام‘‘ اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے۔ بے شک سرورِ کائنات کی حیاتِ مبارکہ کو قلمبند کرنے اور کتاب کے اوراق میں سمونے کی سعادت علم و آگہی کی روشنی سے کائنات کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ طمانیت قلب و ذہن کا باعث بھی بنتی ہے اس لئے محمد عبدالقیوم صاحب بھی ان چنیدہ شخصیات میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے ذکرِ مولائے کُل کو پھیلا کر اور آنکھوں کا سرمہ بنا کر اپنے لئے توشۂ آخرت کا اہتمام کیا ہے۔ حیاتِ طیبہ کا احاطہ کرنا بے شک کوئی آسان کام نہیں اور آج کے دورِ پُرفتن میں تو حضرت نبیٔ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور معاملاتِ رسول صلی ﷺ کی خلقِ خدا، امتِ محمدیہؐ کے ذہنوں میں راسخ کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ باطل الحادی قوتوں کی فتنہ گری ناپختہ ہی نہیں، پختہ ذہنوں کو بھٹکانے کے بھی راستے نکالتی نظر آ رہی ہے۔ اس تناظر میں محمد عبدالقیوم صاحب نے ’’پیغمبر اسلام‘‘ کی جامع اور خوبصورت پیرائے میں تدوین و اشاعت کا کارنامہ سرانجام دے کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کی روشن راہ دکھائی ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سات سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو جس ذوق و شوق سے مرتب کیا گیا ہے اور دیدہ زیب رنگین اوراق پر اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے وہ قاری کے دل کو لبھاتی اور اس کا ورق ورق اور لفظ لفظ پڑھنے کا شوق ابھارتی ہے۔ البتہ اس کی چار ہزار روپے پر مبنی قیمت اسے عام آدمی کے لئے خریدنے میں سدِّراہ ہو سکتی ہے۔ میری اطلاع و شنید کے مطابق محمد عبدالقیوم صاحب ایک متمول خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہوں نے اپنی باقیماندہ زندگی شانِ رسالت مآبؐ کے تذکرۂ عام کے لئے وقف کی ہوئی ہے تو ’’پیغمبر اسلام‘‘ کو قیمتاً خواص و عام کی دسترس میں لانا ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ صدقۂ جاریہ کے طور پر اس کتاب کی ترسیل کا بلامعاوضہ اہتمام کر کے جنت کے باغوں میں اپنے لئے خاص مقام کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ برادرم طارق امین کے ذریعے مجھے اپنے دیرینہ رفیق و محب اسلم بشیر کی اچانک رحلت کی خبر ملی۔ میری آنکھوں کے سامنے جہاں ان کی مجلسی زندگی گھومنے لگی وہیں زندگی کی بے ثباتی اور بھی اجاگر ہو گئی۔ میاں اسلم بشیر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے کزن ہونے کے ناطے اگرچہ ایک بڑے صنعتکار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر دکھی انسانیت کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میرا ان کے ساتھ نیاز مندی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میاں برادران (میاں محمد شریف، میاں محمد بشیر) کے مابین خاندانی جائیداد کا تنازعہ عروج پر تھا۔ میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ان کا جاہ و جلال ان کے مقربین کے لئے خیروعافیت کے راستے ہموار کرتا کرتا ان کے چچا میاں محمد بشیر کے ساتھ خاندانی وراثت کی تقسیم کے سنگین تنازعہ تک آ پہنچا۔ ماڈل ٹائون لاہور ایچ بلاک میں میاں برادران کے گھروں کی دیواریں بھی سانجھی تھیں۔ مجھے اپنی زندگی میں صرف ایک بار میاں نوز شریف کے گھر کے دسترخوان پر پوری شریف فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ڈنر کرنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہ بھی اس طرح کہ مرحوم سید انور قدوائی مجھے اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔
بے شک شریف فیملی میں اتفاق دیدنی تھا مگر ان کے پڑوس میں موجود ان کے کزنز انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ میاں نواز شریف جب وزیر اعظم بنے تو میاں اسلم بشیر کے بقول انہوں نے خاندانی جائیداد کی تقسیم سے متعلق ایک اشٹام پیپر انہیں بھجوایا اور آنکھیں بند کر کے اس پر دستخط کرنے کے لئے کہا، بصورت دیگر کچھ بھی ہاتھ نہ آنے کی درونِ خانہ دھمکیاں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اصل حق کے لئے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ کسی نے انہیں نوابزادہ نصراللہ خاں کے -32 نکلسن روڈ والے گھر کا راستہ دکھا دیا۔ نوابزادہ صاحب اس وقت کے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایف (عوامی جمہوری اتحاد) کے قائد تھے اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی اس اتحاد کا حصہ تھے۔ اس اتحاد کی قیادتوں نے شریف فیملی کے کزنز کے وراثتی جائیداد میں حق کے لئے آواز اٹھانا اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنا لیا۔ میرا نوابزادہ صاحب کی اقامت گاہ پر ہی میاں اسلم بشیر سے یاد اللہ کا سلسلہ شروع ہوا جو ان کے آخری سانس تک جاری رہا۔ شریف فیملی کے ساتھ جائیداد کے تنازعہ کے دنوں میں پرنٹ میڈیا پر میاں اسلم بشیر کے ڈنکے بجنے لگے اور اسی دبائو کے نتیجہ میں میاں بشیر اور میاں معراج دین کی فیملی کے لئے بھی ’’حق بحقدار رسید‘‘ کی نوبت آئی۔ اس بٹوارے میں پاکپتن کی اتفاق شوگر ملز میاں اسلم بشیر کے حصے میں آئی۔ جائیداد کی تقسیم کے بعد میاں برادران میں پھیلی ارتعاش کی لہریں بھی سکون میں آ گئیں اور میاں اسلم بشیر اپنے دوستوں کے اکسانے کے باوجود سیاست سے دور ہی رہے اور عملاً گوشہ نشین ہو گئے۔ بس سال میں ایک دو بار وہ میری وساطت سے میڈیا کے دیرینہ دوستوں کے ساتھ ’’ہمہ یاراں بہشت‘‘ کا اہتمام کرتے۔ پچھلے دو سال سے یہ سلسلہ بھی منقطع تھا۔ ان کی وفات سے صرف ایک روز قبل میری لندن میں مقیم ان کے بچپن کے دوست طارق امین سے ٹیلی فونک گفتگو ہوئی تو میاں اسلم بشیر کا بطور خاص تذکرہ ہوتا رہا۔ طارق امین کے بقول میاں اسلم بشیر نے دو روز قبل ہی انہیں کہا تھا کہ وہ ملک واپس آئیں تو ہم سعید آسی صاحب کے ساتھ بیٹھ کر دوستوں کی نشست کا اہتمام کرتے ہیں۔ کیا خبر تھی کہ وہ اس اہتمام سے پہلے خود ہی راہیٔ ملکِ عدم ہو جائیں گے۔ بس یہی حیاتِ مستعار کی حقیقت ہے۔ میں نے میاں اسلم بشیر کی مغفرت کی دعائوں کے ساتھ محمد عبدالقیوم کی کتاب ’’پیغمبر اسلام‘‘ کے پڑھے اوراق بھی ایصال ثواب کے لئے ان کی روح کے سپرد کر دئیے ہیں۔
گرقبول افتدز ہے عزوشرف