سپریم کورٹ کی طرف سے پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ مانگنے پر اراکین قومی اسمبلی نے کھری کھری سنا دیں اور واضح کیا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، کسی قسم کی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ قومی اسمبلی میں ارکان کی تقاریر سے ملک کے دو آئینی اداروں کے آمنے سامنے آنے کا تاثر کھل کر سامنے آگیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کھل کر اس موضوع پر بات کی اور سپیکر کو مشورہ دیا کہ میری سپیکر سے درخواست ہے کہ وہ بطور کسٹوڈین آف دی ہاو¿س سپریم کورٹ کو خط لکھیں اور اس پنجاب خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے کیس کی کارروائی کی تفصیلات طلب کریں۔ یہ ہمارا حق ہے، یہ ادارہ آئین اور عوام کی بالادستی کا علمبردار ہے۔ اس کا محافظ ہے۔ عدلیہ ہمیں بتاتی ہے کہ مذاکرات کریں، پہلے وہ خود مذاکرات کریں۔ پہلے اپنی تو بیٹھ کر اندر پنجائیت لگائیں، اس کے بعد ہمیں ہدایات جاری کریں۔ مذاکرات، پنچائیت، محفلیں لگانا یا ہدایات دینا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے عدلیہ کو ڈیم فنڈز اکھٹے کر نے اور آمروں کی حمایت کرنے کا طعنہ بھی دے ڈالا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ایسے نہیں ہو گا، اگر جنگ لڑنی ہے تو پھر جنگ ہوگی۔ یہاں پر پارلیمنٹ ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ پارلیمنٹ اپنے وزیراعظم کو بلی نہیں چڑھائے گی، وہ وقت چلا گیا جب وزیراعظم بلی چڑھائے جاتے تھے۔ رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی، چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نور عالم خان، وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے سپریم کورٹ کو کارروائی کا ریکارڈ فراہم کرنے کی مخالفت کی جبکہ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد ابوبکر نے کہا کہ ایک جج کی گفتگو آڈیو ٹیپ پر فرانزک کرانے کا مطالبہ کیا۔ مولانا عبد الاکبر چترالی نے مطالبہ کیا کہ امیر جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ اپنے آپ کو سرخرو کرے اور الیکشن کا معاملہ سیاستدانوں کے سپرد کر دے۔ اداروں میں خلفشار ہے۔ قومی اسمبلی نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کے قیام کی تحریک بھی منظور کر لی۔ اجلاس میں جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی بنانے کی تحریک پیش کی جس کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔