سرچ کمیٹیوں کے ارکان کی سرچ

تحریر انور خان لودھی

ادھر سرچ کمیٹیاں بنیں، ادھر وائس چانسلر بننے کے خواہشمندوں نے سرچ لائٹیں اٹھا لیں، کوئی سفارشیوں کو ڈھونڈنے لگ پڑا، کچھ نے سرچ کمیٹیوں کے ارکان پر ری سرچ شروع کردی۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔ کوئی نظام بنایا تو اچھائی کیلئے جاتا ہے، اس کا غلط استعمال کرنے والے خود غلط ہوتے ہیں نہ کہ نظام۔ خوش آئند قرار دیا جانا چاہئے کہ وائس چانسلرز کی تعیناتی کیلئے خشت اول رکھ دی گئی ہے۔ سرچ کمیٹیاں اب اشتہار دیں گی، درخواستیں شارٹ لسٹ کریں گی، انٹرویو کریں گی اور ہر یونیورسٹی کیلئے تین بہترین امیدواروں کی فہرست محکمہ ہائر ایجوکیشن کے سپرد کر دیں گی۔ آگے یہ وزیر اعلیٰ کا اختیار کہ کسے بطور وائس چانسلر بہترین سمجھیں۔ البتہ روائت یہی ہے کہ سر فہرست کو ہی وائس چانسلر لگایا جاتا ہے کیونکہ ایک مقدمے میں اعلیٰ عدلیہ قرار دے چکی ہے کہ اگر میرٹ پر دوسرے یا تیسرے نمبر پر موجود امیدوار کو تعینات کیا جاتا ہے تو سرفہرست کو نظر انداز کرنے کی ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی۔ پنجاب کی دو درجن سے زائد یونیورسٹیاں ڈیڑھ دو سال سے مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں۔ وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی نگران حکومت نے یہ اہم آسامیاں پر کرنے کیلئے عمل شروع کیا لیکن عدالت عالیہ نے اس پر حکم امتناعی جاری کردیا اور قرار دیا کہ وائس چانسلر تعینات کرنے کا اختیار نگران حکومت کا نہیں ہے۔ عام انتخابات کے بعد مارچ میں پنجاب میں باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی اور مریم نواز شریف نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ امید تھی کہ وہ سب سے پہلے وائس چانسلرز مقرر کرنے کیلئے ہدایات جاری کریں گی لیکن ان کو شاید معاملات کو سمجھنے میں وقت لگا۔ اس دوران یونیورسٹیوں کے چانسلر گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے بھی حکومت پنجاب کو خط لکھا اور وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل جلد شروع کرنے کی تجویز دی۔ بہرحال دیر آید درست آید محکمہ ہائر ایجوکیشن نے یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کےلئے سرچ کمیٹیاں قائم کردیں، وزیر اعلیٰ مریم نواز کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے چھٹے اجلاس میں بنائی گئی ان سرچ کمیٹیوں کا ٹاسک یونی ورسٹیز کے لئے مناسب وائس چانسلرز کو تلاش کرنا ہے۔ کل 25 یونیورسٹیوں کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جنرل کیٹگری کی بڑی یونیورسٹیز جن کی تعداد 12 ہے، کی سرچ کمیٹی کا سربراہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ اسماعیل قریشی کو بنایا گیا ہے، لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ محمد اصغر، سابق بیوروکریٹ فرخندہ وسیم، امجد ثاقب جنرل کیٹگری سرچ کمیٹی کے ممبر ہوں گے، ماہر تعلیم ظفر اقبال قریشی جنرل کیٹگری کی ماضی قریب میں قائم کی گئیں چھ یونیورسٹیز کی سرچ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ فرخندہ وسیم، اعجاز منیر، سابق چیئرمین پی ایچ ای سی ڈاکٹر نظام الدین سرچ کمیٹی کے ارکان ہیں۔ تیسری کیٹگری ویمن یونیورسٹیوں کی ہے جن کی تعداد سات ہے۔ ان جامعات کے وائس چانسلرز کیلئے ماہر معیشت ڈاکٹر عاشہ غوث پاشا کو سرچ کمیٹی کی سربراہ بنایا گیا ہے، اس سرچ کمیٹی کے دیگر ارکان میں کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید، ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، ڈاکٹر رخسانہ ڈیوڈ شامل ہیں۔ سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن تمام سرچ کمیٹیوں کے ممبر ہوں گے۔ وی سی بننے کیلئے 65 سال بالائی حد ہے جبکہ انٹرویو کے لئے کوالیفائی کرنے کے لئے وائس چانسلرز کے امیدوار کے لئے 75 فیصد سے 80 فیصد کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔ سرچ کمیٹیوں میں شامل افراد کا جائزہ لیں تو ان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے گاڑھی چھنتی نظر آتی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے قریب ہونا کسی کی قابلیت پر سوال نہیں اٹھاتا۔ اسماعیل قریشی جو سرچ کمیٹی ون کے کنوینر ہیں سینئر بیوروکریٹ اور آصف زرداری کی آنکھ کا تارا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے تو اسماعیل قریشی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن تھے۔ وزیراعظم کی ہدایات پر اوگرا میں تقرریوں ایسے کچھ کام کئے جن پر انگلیاں اٹھیں اور ان کی پاداش میں اسماعیل قریشی نیب کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے، ڈی جی حج راو¿ شکیل کے تقرر کا سکینڈل آیا تو ایف آئی اے کے دفتر سے اسماعیل قریشی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ وہ سیکرٹری پاور ڈویڑن بھی رہے اور گذشتہ برس سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کے چئیرمین بورڈ آف گورنرز مقرر ہوئے۔ فرخندہ وسیم افضل دو سرچ کمیٹیوں کی رکن ہیں، سینئر بیوروکریٹ ریٹائر ہوئیں، ان کے خاوند حسن وسیم افضل بھی بیوروکریٹ تھے۔ پیپلز پارٹی کے 2008 سے 2013 کے دور میں دونوں میاں بیوی کو او ایس ڈی بنایا گیا اور اہم عہدے دینے سے پرہیز کیا گیا جس پر میاں بیوی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 1978 میں سول سروس جائن کی اور 2014 میں بطور ڈی جی سول سروس اکیڈمی ریٹائر ہوئیں۔ اکنامکس ان کا مضمون ہے جس کی اعلیٰ تعلیم کینیڈا اور امریکہ سے حاصل کی۔ کمیٹی کے ایک رکن لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمد اصغر ہیں۔ وہ ہائر ایجوکیشن پاکستان میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز کے ڈی جی رہے۔ سرچ کمیٹی کے رکن کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید سینئر بیوروکریٹ رہے ہیں۔ وہ 2014 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران کمشنر راولپنڈی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں فیڈرل پبلک سروس کمشن کا چئیرمین لگایا گیا۔ویمن یونیورسٹیوں کی سرچ کمیٹی کی سربراہی عائشہ غوث پاشا کے پاس ہے۔ اسی کمیٹی میں ایک اور پاشا بھی ہیں یعنی طلعت نصیر پاشا۔ وہ تین بار وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ تعلقات بنانا اور نبھانا جانتے ہیں۔ عائشہ غوث پاشا ماہر معیشت ہیں اور وزیر خزانہ رہ چکی ہیں۔ سرچ کمیٹی کی اسائنمنٹ وہ پانچ سال پہلے بھی نبھا چکی ہیں۔ ڈاکٹر نظام الدین دو بار جامعہ گجرات جے وائس چانسلر اور پھر پنجاب ایچ ای سی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس وقت بھی ایک نجی تعلیمی ادارے کی سربراہی کر رہے ہیں۔ امجد ثاقب ڈاکٹر بھی تھے اور سول سرونٹ بھی لیکن نہ ڈاکٹری کی اور نہ افسر رہنا پسند کیا۔ سماجی خدمت میں نام کمایا۔ این جی او (اخوت) بنا کر مائیکرو فنانسنگ کو عروج بخشا اور غربت کے خاتمے کے لئے کوشاں رہے۔ اخوت یونیورسٹی بنائی اور چلائی۔ کمیٹی کی ایک اور معزز رکن رخسانہ ڈیوڈ ہیں جو دوسری بار ایک موقر تعلیمی ادارے کنئیرڈ کالج کی پرنسپل تعینات ہوئی ہیں۔ فائن آرٹس ان کا ڈسپلن ہے اور ہائر ایجوکیشن پر ان کی گہری نظر ہے۔ عالمی سطح پر ماہر تعلیم کے طور پر ان کی نیک نامی مسلمہ ہے۔ ZIQ یعنی ظفر اقبال قریشی ماہر تعلیم ہیں۔ ایک بڑے صنعتی گروپ جو تعلیمی ادارے بھی چلاتا ہے کے نمائندے ہیں۔ ن لیگ حکومت کی قائم کردہ ماضی کی سرچ کمیٹیوں میں بھی ظفر اقبال قریشی زمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ اعجاز منیر بھی بیوروکریٹ ریٹائر ہوئے ہیں۔ جب پنجاب میں ن لیگ کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنیوالے طلبائ میں لیپ ٹاپ بانٹنے شروع کئے اور ان تقریبات میں موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب محض اس لئے مہمان خصوصی ہوتی تھیں کہ وہ پنجاب کے حکمرانوں کی دھی تھیں، تب اعجاز منیر سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ تھے۔ سرچ کمیٹی کے سبھی ارکان نابغہ روزگار ہیں۔ اگر سرچ کمیٹیوں کے معزز اراکین پنجاب کو 25 ایسے بہترین افراد منتخب کر کے دے دیتے ہیں جو تعلیمی و انتظامی میدان میں اچھے منتظم ہوں تو اس سے یونیورسٹیوں کا بھلا ہوگا۔ یونیورسٹیوں کا بھلا ہوگا تو اچھے سٹوڈنٹس اور ریسرچرز پیدا ہوں گے۔ تبھی تو معاشرہ پائیدار ترقی کرے گا۔ رہے نام اللہ کا۔

ای پیپر دی نیشن