چنیدہ الفاظ ، دو ٹوک انداز میں پاکستان نے امریکی انسانی حقوق رپورٹ کو مسترد کر دیا بلکہ غزہ میں جاری انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی پر بھی سوال کھڑا کر کے بہت سے مناظر عیاں کردیے۔ دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر جاری احتجاجی مظاہروں کے باوجود غزہ میں نہ جنگ بندی ہو پائی نہ ہی مظلومین کو امداد پہنچنے دی جاری ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کی وارننگ کے باوجود شفاءہسپتال کے مریضوں کا انخلاءنہیں ہونے دیا گیا۔ گھر، خوراک، دوائی، پانی سبھی کچھ بند۔ کیا یہ انسانی حسن سلوک کی بہترین مثالیں ہیں ؟ ہمسایہ ملک کی مقبوضہ کشمیر میں جاری سفاکانہ کاروائیاں۔ ہماری سرزمین پر دراندازی ۔ دہشت گردی کی گھناو¿نی وارداتیں۔ دہشت گردی کی سرپرستی کیا بنیادی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے تقاضے پورے کرتی ہیں ؟مقبوضہ وادی کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل کیا انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹس اس طرف کا رخ کرنے سے کتراتی ہیں یا قاصر ہیں ؟ ہم تو دل سے چاہتے ہیں کہ نہ صرف ہمسایوں سے تعلقات بہترین امن کی حالت میں بحال ہوں بلکہ تجارت بھی دو چند ہو۔ آپسی لین دین میں ہر دو کا فائدہ ہے مگر ہماری پُر خلوص خواہشوں کے اظہار کے باوجود ہمسائے راضی نہیں ہو رہے سچ یہ ہے کہ وہ راضی ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ہم اور ہمارے ادارے امن پر سو فیصد یقین رکھتے ہیں شواہد۔ اب تک کی ہمسایوں کی کارروائیاں اور ان کے جواب میں ہمارے صبر کی اعلیٰ مثالیں ۔ مگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اِس تک نوبت نہ ہی آئے تو خطے کے لیے بہتر ہوگا۔
سوائے چند گنے چنے مخصوص مواقع پر (وہ بھی جب امریکہ کے مفادات کا تحفظ ہمارے سہارے ۔ تعاون کے بنا ممکن نہ تھا) اس مختصر دورانیہ کے علاوہ پاک امریکہ تعلقات شروع سے اتار چڑھاو¿ کا شکار رہے ہیں۔ اُس طرف سے اکثریتی وقت الزامات در الزامات ۔ بے بنیاد شکوک پر مبنی رپورٹس پر استوار تعلق ہی نمایاں رہا جبکہ ہماری طرف سے ہمیشہ سر تسلیم خم کی پوزیشن کے باوجود ہر دور میں ’ڈومور‘ کی لسٹ لمبی ہوتی گئی۔ ایک طرف حالیہ رپورٹ ۔ساتھ ہی پاکستان کے اہم ترین شراکت دار ہونے کا اعتراف دوسری طرف دونوں ممالک کا مضبوط رشتہ ہونے کا اقرار۔ دوستی ۔ دشمنی بیک وقت نہیں چل سکتے مگر دونوں ممالک کی تاریخ ایسے مناظر دیکھنے کی عادی ہے اور گواہ بھی ۔ ہفتہ قبل امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا بیان بے حد خوش کُن تھا کہ پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اُٹھایا اور اب؟ اِ س خبر پر خوشی ہوئی کہ فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کے انکشاف پر امریکہ نے اسرائیل سے جواب مانگ لیا۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت (زمینی) وسائل سے مالا مال ۔ ذہانت ۔ علم کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی ایجاد کی سرزمین ہے۔ امریکی قوم کی اہلیت ۔ مہارت کی پوری دنیا معترف اور فیض یافتگان میں شامل ہے۔ اُس کو اپنے وسائل ۔ طاقت کے مطابق دنیا میں بلا تفریق قوم و ملک مبنی بر انصاف نظام قائم کرنے میں مثالی ۔سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے ۔ چھوٹے ممالک کے ساتھ ’بڑے بھائی‘ مانند رویہ ۔ سلوک اپنانا چاہیے ۔ غریب ۔ پسماندہ۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو خوشحالی کی راہ اپنانے کے ضمن میں مخلص تعاون کی ضرورت ہے اگر ہم دل سے امن۔ خوشحالی کے خواہاں ہیں تو جنگوں میں وسائل جھونکنے کی بجائے عملاً مصالحتی اقدامات شروع کرنے کا عہد کریں۔ آغاز کریں۔ ہمسایہ ملک کے آپسی تعلقات معاشی لین دین کو باہم امور متصور کر کے مداخلت ۔ وارننگز اور پابندیوں کی روایتی سیاست سے نکل جائیں ایرانی صدر کی آمد کو غلط معانی نہیں پہنانے چاہئیں ہم تو سرحد جڑے ہمسائے ہیں۔ ہزاروں میل دور واقع تصور کردہ دشمن ملک بھی تب دشمن نہیں رہتا جب کسی قوم کا مفاد اس کی رضا میں بدلتا ہے۔
وسائل۔ ہنر ۔ علم بانٹنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ خود کی معاشی بڑھوتری پرواز کرتی ہے۔ لوگ آپ کے فیض یافتہ بن کر آپ کے گُن گاتے ہیں ۔ گولیاں ۔ بم کھا کر نہیں ۔ بات چیت امن کے لیے ہو تو تعمیری ۔ با مقصد نتائج کا موجب بنتی ہے جبکہ جنگ کے لیے ہو تو سوائے تباہی ۔آتش برسانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ غزہ کی پٹی میں جاری جنگ انسانیت کے لیے جہنم سے کم نہیں ۔ سیکرٹری یو این او۔ اس قدر جرا ¿تمندانہ بیان بھی عالمی برداری کے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص کا ہے۔ معاملات کی سنگینی کا ادراک اِسی طبقہ فکر کے لوگوں کو زیادہ ہے اور خوشی ہے کہ وہ اپنی بے لاگ رائے کا اظہار علانیہ کرتے ہیں اور یوٹرن بھی نہیں لیتے ۔ چین نے بھی امریکہ کو مداخلت نہ کرنے کا صائب مشورہ دیا ہے واقعی لمحہ موجود کی دنیا میں ممالک کو تو چھوڑیں ایک عام آدمی بھی اپنے معاملات میں کِسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا تو یہاں تو پیش نظر آزاد اقوام ہیں ۔ خود مختار مملکتیں ہیں ۔ اس لیے ہمیشہ کی طرح تجویز ۔ مشورہ دے رہے ہیں کہ بس اب مداخلت نہیں تعاون ۔ مدد ایک نئے سنہری فیز کا آغاز کریں ۔
ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان بلاشبہ انتہائی قابل بھروسا مفاہمتی ملک ہے۔ سرحد جڑے ہمسایوں ۔برادر ممالک کی زیادیتوں ۔ ناانصافیوں ۔ دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے استقامت سے پُر امن سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ ہر سانحہ کی کمال تحمل ۔ برداشت کے ساتھ صرف الفاظ کی صورت میں مذمت کی۔ چند ایک کے سوا صرف لفظی شکوہ کیا۔ حقائق سب پر عیاں ہیں۔ شواہد جتنے پہلے پوشیدہ تھے اب آزادی اظہار کی بدولت ہر کس و ناکس کے علم میں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب۔ ایران سے پاکستانیوں کے لیے آن ارائیول ویزہ کی سہوت لیں اور بدلہ میں عوام بھی سہولت کا جائز استعمال کریں۔
نواز شریف عمران خان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔رانا ثنا اللہ سابق وزیر داخلہ۔ سیاست میں دوستی دشمنی حرف آخر نہیں ہوتی ۔ ملکی مفاد کے لیے اکٹھے بیٹھنے ۔ مسائل کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ انا۔ انتقام ۔ ضدی پن کے نتائج ماضی میں سب نے دیکھ اور پڑھ رکھے ہیں ۔ ضروری نہیں ہر مرتبہ خود کی ذات کو مقدم رکھنا۔ حکومت کی طرف سے متواتر مفاہمت ۔ مذاکرات کی پیشکش کی جاری ہیں تو وہاں اپوزیشن کا مطالبہ بھی جائز ہے کہ پکڑ دھکڑ ۔ چھاپے بند کریں ۔ مذاکرات کی خواہش کو عملی صورت میں کر لیں کہ حکومت ایسی کاروائیوں کو روک دے۔ پنجاب اسمبلی میں گندم خریداری پالیسی کو حکومت اور اپوزیشن نے یکجا ہو کر مسترد کردیا ۔ ماضی میں یکجانی کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ مراعات بلز پر ایک دوسرے کے شدید ترین ناقدین ۔ مخالفین کو ایک صفحہ پر دیکھنے کی ۔ تو سیاسی ۔ آئینی معاملات میں کیوں متحد نہیں ہو سکتے؟ کرسیاں اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں اُن پر بیٹھنے والے بدلتے رہتے ہیں آج کوئی حزب اختلاف میں کل حکومت میں تو کیا فائدہ ایک دوسرے کو خوار ۔ بدنام کرنے کا ۔ اتحاد ۔ مفاہمت ۔ برداشت کا فیز شروع ہونا اب بہت ضروری ہو چکا ہے ۔ ایک دوسرے کا احترام ۔ ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اشد ضروری ہے۔ جب ہم دنیا کی سپر پاور کی مداخلت مسترد کر سکتے ہیں تو ایک دوسرے کی کیوں نہیں ؟