کس کو پتہ نہیں کہ عمران خان اسی اسٹیبلشمینٹ کے انہی کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے جن پر ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نوازشریف تک نے رفعت پانے کا شرف حاصل کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب عمران خان بالکل اسی طریقہءواردات سے مسند ِ اقتدار پر لائے گئے تو اس وقت نہ پی ٹی آئی کے انقلابی عوام نے کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی خود عمران خان کے ماتھے پہ کوئی شکن نظر آئی۔
عمران خان نے کئی بار خود اعتراف کیا کہ وہ تو جنرل باجوہ کے مطابق چلتے رہے۔ انہوں نے وزیر تک جنرل باجوہ کی خواہش کے مطابق لگاﺅ اور ہٹاﺅ۔ حتیٰ کہ الیکشن کمشنر تک جنرل باجوہ کے کہنے پر لگایا گیا۔ میں صدقے جاو¿ں قائد ِ اعظم کی جگہ لینے والے اپنے اس پیارے لیڈر کے، جو الیکشن کمیشن کی تقرری آرمی چیف کے کہنے پر کرتا ہے۔ اس جمہوری چیمپئین کو تو نوبل پرائز ملنا چاہیے۔ مبینہ طور پر عثمان بزدار اور علیم خان کے معاملے پر عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات خوش اسلوبی سے دور کیے جاسکتے تھے لیکن اس پر بھی عمران خان صاحب کسی زیرک سیاستدان یا لیڈر ہونے کا ثبوت نہ دے سکے حالانکہ یہ وہی علیم خان تھے جن کے سرمائے سے تحریک ِ انصاف کے جلسے منعقد کیے گئے۔ پی ٹی آئی پر پیسے خرچ کرتے وقت بھی علیم خان پراپرٹی ڈیلر ہی تھے اور اس سے پہلے بھی۔ حتیٰ کہ مینار پاکستان پر ہونے والا پی ٹی آئی کا وہ تاریخی جلسہ بھی علیم خان کے زیر انتظام ہوا تھا جو گیم چینجر ثابت ہوا اور تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔ اس وقت شاید عمران خان عثمان بزدار کو علیم خان پر ترجیح دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ایک پراپرٹی ڈیلر کے پیسے سے اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کا سپورٹر ہونے کے ناطے اس وقت تو مجھے شرم کے مارے پسینے آ رہے تھے جب جہانگیر ترین اسمبلی میں تقریر فرما رہے تھے کہ وہ تو اپنی ملوں کے تحفظ کے لیے اور شریف خاندان کے ستائے ہوئے سیاست میں آئے ہیں- یہ تھا جناب عمران خان صاحب کی اے ٹی ایم کا سیاسی نظریہ جس پر عمران خان صاحب مطمئن بھی تھے اور مزے میں بھی تھے کہ ایک ایسا سرمایہ دار ان سے آن ملا ہے جس کے جہاز میں جھوٹے لیے جاسکتے ہیں۔
عمران خان نے پورے زعم سے ملک کو کرکٹ کے طور پر چلانے کی کوشش کی اور بطور کیپٹن ایسی ٹیم سلیکٹ کی جس نے ذرا سا مشکل وقت آنے پر دوڑیں لگا دیں۔ عمر سرفراز چیمہ جیسے تمام پرانے اور نظریاتی ورکرز کو ہٹا کر ایسے غیرسنجیدہ اور سیاسی نابالغوں کو حکومت میں لایا گیا جن کو خود تحریک انصاف پر عوام کے بھروسے کی وجہ تک معلوم نہیں تھی۔
میرے جیسے لوگ اگرچہ عمران خان کی حمایت جاری رکھے ہوئے تھے لیکن اس لیے دور ہوتے گئے کہ اسے باصلاحیت لوگوں سے خوف آتا ہے اور اپنے سے کم علم اور کسی بھی حوالے سے کم رتبہ لوگ پسند ہیں۔ اس نے ہر ویژنری اور نظریاتی پارٹی ممبر کو خود سے دور کیا۔ عون چوہدری اور شہباز گِل ذاتی سطح پر بہت اعلیٰ انسان ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک کی تقدیر بدلنے کے دعویدار کسی لیڈر کے سٹاف افسر یا سپوکس پرسن ہونے کی اہلیت ہرگز نہیں رکھتے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہہ اور جسٹس ناصرہ جیسے لوگوں کو نظر انداز کیا اور کم بصیرت لوگوں میں ہر وقت گھرے رہنے کو ترجیح دی۔ ایک طرف امریکہ کو ابسولیوٹلی ناٹ کہا تو دوسری طرف گوگل میں کام کرنے والے پروفیشنلز کو اہم ذمہ داریاں سونپیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف سے تنازعہ پیدا کیا تو دوسری طرف انہی کے ملازمین کو سٹیٹ بینک آف پاکستان میں کلیدی عہدوں پر بٹھانا قبول کیا۔ ایک طرف ریاست ِ مدینہ کا نعرہ لگایا تو دوسری طرف سودی نظام بارے ایک جملہ تک اس کی زبان سے نہ نکل سکا۔ یوکرائن رشیاءوار میں خود کو غیرجانبدار رکھنے کا اعلان کیا لیکن ملک اور اپنی حکومت کو اس کے نتائج بھگتنے سے بچانے کی منصوبہ بندی نہ کر پائے۔ جنرل باجوہ سے عین اس وقت تنازعات شروع کیے جب پاکستان میں ہر جمہوری حکومت کی طے شدہ مہلت پوری ہوجاتی ہے اور اسے گھر بھیجنے کی تیاریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اگر جرنیلوں سے یا اسٹیبلشمینٹ سے ملک کی پالیسیوں پر اصولی اختلافات پیدا ہوگئے تھے تو اس بنیاد پر استعفیٰ دے کر عوام میں آجاتے۔
اپنی ہی غیرسیاسی اور غیر دانشمندانہ حرکتوں کی وجہ سے باہر ہوئے اور اس کے بعد ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ فوج پر حملہ آور ہوگئے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ 9 مئی کو ہونے والے کورکمانڈر ہاو¿س کے واقعے میں براہ راست تحریک انصاف ملوث تھی کیونکہ میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ عمران خان کی تقریروں اور پارٹی لیڈرشپ کے پراپیگنڈے کے باعث عوام اور فوج کے درمیان فاصلے اتنے بڑھ گئے تھے کہ اسکے بعد جتنے بھی نفرت انگیز اور شر انگیز واقعات سامنے آئے ان کا وقوع پذیر ہونا فطری امر تھا۔
اگر اسی اسٹیبلشمینٹ کے ہاتھوں آپ کو اقتدار سے نکلنا پڑا جس کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنا آپ نے بخوشی اور پورے فخر سے قبول فرمایا تھا تو اس میں فوج کے ادارے اور اس فوجی کا کیا قصور تھا جو ہر وقت اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ کیا یہ غلط ہے کہ آپ کی نفرت انگیز تقریروں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ورکرز کے دل افواج پاکستان کے خلاف اتنے زہر آلود ہوچکے تھے کہ انہوں نے شہداءکی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے میں ذرا جھجھک محسوس نہ کی۔ عمران خان تو کبھی انقلابی تھے ہی نہیں۔ وہ تو عوام کو بار بار اسلام آباد لے کر گئے اور مروا مروا کر بےنیل و مرام واپس لے آئے۔ اپنے اقتدار کے لیے عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنے والے عمران خان نظریاتی ہوتے تو اسٹیبلشمینٹ کو پہلے دن کہتے کہ امور ریاست سے دور رہیں۔ آپ تو ایک پیج پر اکٹھے ہو کر حکومت چلاتے رہے۔ اور آج آپ پھر اسی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اسٹیبلشمینٹ باقی سب کو ایک دفعہ پھر چور قرار دے کر اقتدار سے باہر نکالے اور آپ کو اقتدار میں واپس لے آئے تاکہ آپ پھر جلسے کی نظامت کرنے والے کسی ڈی جے کو قانون ساز اسمبلی میں بٹھائیں اور کسی فیکٹری چلانے والے کو وزیر خزانہ بنا دیں۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر آپ شہد کے رسیا لوگوں کو اور پورے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے چھٹے ہوئے لوگوں کو پہلو میں لے کر پھرتے رہے۔ رب تعالیٰ نے پوری دنیا کو دکھایا کہ اس لیڈر کے نزدیک ریاست مدینہ محض ایک مذہبی ٹچ ہے اور آپ پاکستانی عوام کی مذہبی وابستگی کی وجہ سے ان کو بےوقف بنا رہے ہیں۔ آپ نے پارٹی کے حقیقی ورکرز کو، جن کی جوانیاں لگی ہوئی تھیں پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد میں، یکسر فرماموش کرکے انہی سیاسی وڈیروں کے بچوں کو وزارتیں دیں جن کے خلاف نعرہ لگا کر آپ سیاست میں آئے تھے۔ کیا ریاست مدینہ میں ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے کا رواج تھا۔ آپ نے عوام کو مفت علاج دینے کی بجائے ہیلتھ کارڈ کے ذریعے سرمایہ دارانہ سودی نظام کے کاروبار کو فائدہ پہنچایا جو اسلام میں اگر حرام نہیں تو حلال بھی نہیں۔ عمران خان کو قائد ِ اعظم کا متبادل قرار دینے والے دراصل عمران خان کو تو بڑھا ہی رہے ہیں لیکن گھٹ قائد ِ اعظم نال وی نئیں کر رہے۔ اتنا ہی سوچ لیں کہ کیا قائد ِ اعظم جنرل باجوہ کے کہنے پر کسی کو الیکش کمشنر لگاتے ؟
٭....٭....٭
قائد ِ اعظم کے ساتھ عمران خاں کا موازنہ؟
May 03, 2024