بجلی کے بل عوام کی استطاعت سے باہر!

 عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک میں بجلی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہمارے حکمرانوں نے ڈیم تعمیر کرنے کی طرف توجہ دینے کی بجائے ایسے ذرائع سے بجلی کی پیداوار کو اہمیت کیوں دی جس نے ہمیں بیرونی قوتوں کا محتاج بناکر رکھ دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث یا اس کا جواب تلاش کرنا سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ منگلا اور تربیلاڈیم کی تعمیر کے بعد کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو جس انداز سے قوم پرستی اور سیاست کی نذ ر کرتے ہوئے متنازعہ بنایا گیا یہ ایک ایسا تکلیف دہ موضوع ہے جس میں قصوروار کے تعین کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت فوری ضرورت عوام الناس پر بجلی کے بلوں کی صورت میں پڑنے والی افتاد سے نجات اور عوام کی قوت خرید پر بڑھتے ہوئے دباو¿ میں کمی لانے کی ہے۔ لیکن اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ الٹا ہر دوہفتوں کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ کی خبر عوام کے اوسان خطاکیے ہوئے ہے جو پہلے ہی مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بدولت ذہنی مریض بن چکے ہیں۔
عوام کیلئے اب یہ بات بھی کوئی معنی نہیں رکھتی کہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں بجلی کے سستے پیداواری منصوبوں کو بروئے کار لانے کی بجائے، جو ہوا کے دباو¿ سے چلنے والی ونڈمل ٹیکنالوجی کی صورت دنیا کے بیشتر ملکوں میں زیر استعمال تھے اور پاکستان کی طویل ساحلی پٹی سے لے کر تھروچولستان کے صحراو¿ں تک میں ہمہ وقت تیز ہوا والے ایسے بیشتر مقامات بھی موجود تھے جہاں ونڈ ملز نصب کی جاسکتی تھیں اور انہیں چالو رکھنے کیلئے مفت میں ہوا کا دباو¿ بھی دستیاب تھا۔لیکن اس کے برعکس بجلی کے ایسے مہنگے منصوبوں کو ترجیح دی گئی جس کیلئے مشینوں سے لے کر ایندھن تک ڈالروں میں باہر سے خرید کر لایا جانا تھا۔ یہ فیصلے کرتے وقت کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ پاکستان کی کرنسی مستحکم نہیں ہے اور معیشت کی معمولی سی کمزوری بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی وقعت کو مزید کم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ جس کا بوجھ ہرصورت عوام نے ہی اٹھانا ہے عوام اس قدر بے حال ہیں کہ وہ اب یہ سوال بھی نہیں کرسکتے کہ بجلی پیداکرنے والے نجی اداروں کے ساتھ بجلی کی قیمت کا تعین پاکستانی روپے کی بجائے ڈالروں میں خریدنے کے معاہدے کیاسوچ کر کیے گئے۔ معاہدوں کی شرائط بھی حیران کن طے کی گئیں کہ بجلی خرید نہ کرنے صورت میں بھی حکومت پاکستان اسکی قیمت ادا کرنے کی پابند بنادی گئی۔
ان معاہدوں کے نتیجے میں بجلی پیداکرنے والے نجی اداروں کے لیے پاکستان یقینا سونے کی کان بن چکا ہے۔ لیکن عوام کی حالت کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدروں سے بھی بدتر بنا دی گئی ہے۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کپسیٹی چارجز کی مد میں نجی پاور کمپنیوں کا تین کھرب روپے سے بھی زیادہ کا مقروض ہوچکا ہے۔ پاکستان کیلئے اتنی خطیر رقم کی ادائیگی سے انکار ممکن نہیں جس میں ہر گزرتے سال کے بعد سینکڑوں ارب روپے کا مزید اضافہ ہوتاچلاجارہا ہے۔ ادائیگی کیلئے حکومت ملکی خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے ہر دوہفتوں بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے پر مجبور ہے۔ مگر نہ تو نجی پاور کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے اس بھاری قرض میں کمی آرہی ہے۔ جو بجلی خرید نہ کرنے کی وجہ سے حکومت نے ہر صورت ادا کرنا ہے۔ ایسے میں حکومت جب قرض کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو وہاں سے بجلی کے خسارے کی مد میں کیپسٹی چارجز میں کمی لانے کی شرط پہلے رکھ دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی حکومتی اخراجات میں کمی لانے کو بھی کہاجاتا ہے لیکن حکومت صرف آئی ایم ایف کی پہلی شرط پر عملدرآمدکو آسان سمجھتے ہوئے عوام پر بجلی کی قیمت میں مزید اضافے کا بوجھ ڈال دیتی ہے جس سے تنگ آکر ملک کے متوسط طبقے نے جب ناقابل برداشت ہوتے بجلی کے بلوں سے جان چھڑانے کیلئے سولر بجلی کی طرف رجوع کیاتو اس کی وجہ سے ایک طرف تو واپڈا کی آمدن میں کمی سامنے آئی۔ اور دوسری طرف بجلی پیداکرنے والے نجی اداروں کو بھی سولر بجلی اپنے لیے خطرہ محسوس ہوئی چنانچہ حکومت نے سولر پینل صارفین پر ٹیکس لاگو کرنے کے بارے میں سوچ بچار شروع کردی جس نے ا ن پاکستانی شہریوں کے حوصلے پست کردیے جو قرض لے کر یا قسطوں پر سولر بجلی کی طرف منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے۔
گو حکومت نے سولر پینل پر ٹیکس لگنے سے متعلق خبروں کی تردید کرد ی ہے لیکن عوام اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اس تردید پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ایک بے بسی ہے عوام الناس جس کا شکار ہیں تو دوسری طرف حکومت بھی بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو لے کر مشکل صورت حال سے دوچار دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا فوری حل اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوام میں اب مزید مہنگی بجلی کابوجھ برداشت کرنے کی سکت ختم ہوتی جاری ہے کیونکہ صرف بجلی ہی نہیں ادویات سے لے کر روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا بھی اکثریتی عوام کیلئے دو بھرہوچکا ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے تعلیمی اخراجات برادشت سے باہرنے ہونے پر اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیا ہے۔ ان کے برعکس ہمارے ملک میں اشرافیہ کی ٹھاٹھ باٹھ اور ان کے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھتے ہوئے خوف آتا ہے کہ اگرپاکستان میں دولت مند اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ اور عوام میں معاشرتی اورمعاشی طور پر بڑھتی ہوئی خلیج کو د±ور کرنے کی کوشش نہ کئی گئی تو ملک کسی بڑے حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...