معاشرتی حقوق (۲)

اسلام سے پہلے حاکم وقت رعایا میں سے کسی کو بھی بغیر کسی ثبوت اور دلائل کہ محض شک اور گمان کی بنا پر قید کر دیتا بلکہ کسی بے گناہ کو پھانسی کی سزا سنا کر اس کا سر قلم کر دیا جاتا ۔ اسلام نے وقت کے حاکم اور جابر حکمرانوں کو سختی سے اس بات سے منع کیا کہ جب تک جرم دلائل سے ثابت نہ ہو قتل کرنا تو دور کی بات اس کو قید بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ 
حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں جب مصر فتح ہوا تو حضرت عمر بن العاص کے بیٹے نے گھوڑ دوڑ کا اہتما م کرایا۔اس دوڑ میں مصر کا ایک قبطی باشندہ بھی شامل تھا جو کہ یہ دوڑ جیت گیا تو حضرت عمر بن عاص کے بیٹے کو غصہ آیاتو اس نے اس قبطی سوا ر کو بیدوں سے مارا ۔ تو وہ شکایت لے کر مدینہ منورہ حضرت عمر ؓ کے پاس آیا ۔
 حضرت عمر ؓنے حضرت عمر بن العاص ؓ اور اس کے بیٹے کو بلایا اور قبطی کو اپنا درہ دے کر فرمایا کہ اسے اتنے ہی درے ماروجتنے اس نے تجھے مارے تھے ۔حضرت عمر ؓ نے بڑے غصے سے عمر بن العاص ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
 اے عمر بن العاص تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد جنا ہے ۔ 
اسلام سے پہلے حکمران اس بات کو اپنا حق سمجھتے تھے کہ کسی کا بھی زبردستی مذہب تبدیل کر وا لیتے لیکن اسلام نے اس کی مذمت کی ۔ ارشاد باری تعالی ہے : دین میں کوئی زبر دستی نہیں ہے بیشک ہدایت خوب واضح ہوگئی ہے گمراہی سے ۔( سورة البقرة )
اسلامی ریاست کا ہر شہری امیر ہو یا غریب ، کسی معزز خاندان کا ہو یا پھر کسی غریب خاندان کا قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ کے دور میں جب قریش کی ایک عورت کو چوری کے جرم میں حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت اسامہ بن زید نے اس کی سفارش کی ۔ یہ سن کر آپ ﷺ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا ۔آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ جب کوئی امیر چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی غریب تو اسے سزا دی جاتی تھی ۔ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا ۔ اسلام نے بغیر اجازت کسی کے گھر داخل ہونے سے منع فرمایا :
 ارشاد باری تعالی ہے : اے ایمان والو نہ داخل ہوا کرو دوسروں کے گھروں میںاپنے گھروں کے سوا جب تک اجازت نہ لے لو اور سلام نہ کر لو ان گھروں میں رہنے والوں پر یہی بہتر ہے تمہارے لیے شاید تم غور کرو ۔ ( سورة النور ) 

ای پیپر دی نیشن