وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کو مزدوروں کے مسائل کا ادراک ہے‘ حکومت آئندہ بجٹ میں انہیں ریلیف دینے کے اقدامات اٹھائے گی۔ مزدور کو جائز حق نہیں ملے گا تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ حکومت مزدوروں کی اجرت میں اضافہ یقینی بنائے گی۔ گزشتہ روز عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی اقامت گاہ پر مزدوروں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن ملک کی تباہی کا سبب ہے‘ اس کا جلد خاتمہ کیا جائیگا۔ انکے بقول ان کا حالیہ دورہ سعودی عرب کامیاب رہا۔ ہم بیرونی سرمایہ کاری سے ملک کو جلد بحرانوں سے نکال لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار اور مزدور درحقیقت ایک ہی گاڑی کے دو پہیئے ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ امیر غریب کے فرق کو کم کیا جائے۔ مہنگائی سے عام مزدور کو یقینی طور پر مسائل درپیش ہیں اور وہ روزانہ کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے کرتا ہے۔ ہم ایسے اقدامات بروئے کار لا رہے ہیں کہ ملک جلد مہنگائی کے چنگل سے نکل جائیگا۔ سعودی کاروباری حضرات پاکستان آنیوالے ہیں جس سے ملک میں روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور مہنگائی کم ہوگی۔ وزیراعظم کے بقول آج سفارش سکہءرائج الوقت ہے‘ کھربوں روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں‘ ہم شاہ خرچیوں میں کمی لانے کی کوشش کرینگے۔ پاکستان کے ہر شہری کو برابری کی سطح پر بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ تیل کے نرخوں میں کمی ہوئی ہے اور عوام کو جلد مزید خوشخبریاں ملیں گی۔
بے شک ہر سال مزدوروں کا عالمی دن جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور حکومتی‘ ادارہ جاتی سطح پر مزدوروں کے ساتھ رسمی طور پر یکجہتی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے مگر مزدور سمیت عوام کے روزمرہ کے اقتصادی مسائل روز بروز بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور مزدوروں کے ننگے جسموں پر تازیانے برساتی مہنگائی نے ان سے سکھ کا سانس لینے کی سکت ہی چھین لی ہے جنہیں کم آمدن کے ساتھ ساتھ روزگار کے بھی لالے پڑے رہتے ہیں۔ اس صورتحال میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر حکمران طبقات کی جانب سے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار انکے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف نظر آتا ہے جبکہ مزدور یوم مئی کے روز بھی اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کام میں جتا نظر آتا ہے جسے اپنے سامنے روزمرہ کے اقتصادی مسائل پہاڑ بنے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں حکمرانوں کی جانب سے مزدوروں اور عام طبقات کو ان کا مستقبل بہتر ہونے کی طفل تسلیاں دی جائیں اور زمینی حقائق اسکے قطعی برعکس نظر آرہے ہوں تو عام آدمی اور پسے ہوئے طبقات کو اپنی زندگی کی تلخیوں کا اور بھی شدت سے احساس ہونے لگتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت مہنگائی‘ بے روزگاری اور غیریقینی اقتصادی حالات نے عام آدمی کی مت مار دی ہے جس کیلئے روزگار کا تحفظ تو کجا‘ روزگار کی دستیابی بھی سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ چنانچہ کام سے محروم ہونے والے مزدور طبقات کے پاس خودکشی کا راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا جبکہ یہ راستہ اختیار نہ کرنے والے بے روزگار مزدور طبقات چوری‘ ڈکیتی‘ راہزنی والے جرائم کے راستے پر چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ مزدوروں کے حالات بہتر بنانے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے دعوے تو اپنی جگہ‘ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اب تک کے حکمرانوں کی عاجلانہ اقتصادی‘ مالی پالیسیوں نے عام آدمی کو عملاً زندہ درگور ہونے کی جانب ہی دھکیلا ہے۔ میاں شہبازشریف نے یوم مئی کے موقع پر کچھ مزدوروں کو اپنے گھر مدعو کرکے بے شک انکی عزت افزائی کی مگر وہ کسی روز بغیر پروٹوکول کے اور بغیر اطلاع دیئے کسی مزدور کے گھر جا کر اسکے حالات کا جائزہ لیں کہ اسکے خاندان کے لوگ کن حالات میں گزراوقات کر رہے ہیں۔ غریب‘ بے روزگار اور کم آمدنی والے مزدور طبقات کے گھروں میں تو آج عملاً فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔ اس صورتحال میں کسی حکمران کے ریاست مدینہ کے نعرے اور کسی کے ملک کو جدید عوامی فلاحی ریاست بنانے کے چکمے تو عوام کے زخموں پر پھاہے نہیں رکھ سکتے۔ کیا ہمارا کوئی حکمران حضرت عمرؓ کے اس فرمان کی پیروی کر سکتا ہے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا سویا تو اسکی ذمہ داری وقت کے حاکم پر ہوگی۔ پی ٹی آئی کے دور میں اعلانیہ یہ تک کہا جاتا تھا کہ عوام کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار کی سہولت دینا ریاست کی قطعاً ذمہ داری نہیں۔ موجودہ حکمران اگرچہ عوام کے ساتھ ایسی اعلانیہ سفاکی کا اظہار نہیں کرتے مگر عملاً تو موجودہ حکمرانوں سمیت ہر حکمران عوام کے مسائل سے لاتعلق ہی رہا ہے جبکہ سرکاری خزانوں کے منہ ہمیشہ اشرافیہ طبقات کیلئے کھولے جاتے ہیں جنہیں پہلے ہی ہر قسم کی مراعات اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں اور قوانین بھی انکے اعمال پر انہیں تحفظ دینے کیلئے ہی وضع کئے جاتے ہیں۔
ہمیں اپنی کڑی شرائط کی جکڑ بندیوں میں کسنے والے آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہمارے حکمرانوں سے متقاضی ہوتے ہیں کہ حکومتی رعایات اور سہولتوں کا رخ اشرافیہ کی بجائے عوام کی جانب کیا جائے تاکہ وہ سبسڈیز کے خاتمے پر زیادہ مضطرب نہ ہوں مگر اسکے قطعی برعکس ہر سہولت چھین کر مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے سارے مسائل کا بوجھ وسائل سے محروم عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ نئے بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے بھی حکومت کا سلسلہ جنبانی شروع ہو چکا ہے جس کا وفد 15 مئی کو پاکستان آرہا ہے۔ اس پیکیج کے ساتھ عام آدمی کو مزید مہنگائی کی مار مارنے کا کتنا اہتمام ہوگا‘ یہ تصور کرکے ہی عام آدمی زندہ درگور ہونے کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حکومت چاہے عوام کو اعداد و شمار کے جتنے بھی گورکھ دھندوں میں الجھاتی رہے‘ آج کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ بجلی‘ گیس‘ پانی‘ ادویات اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاءکے نرخ گزشتہ دس سال کے عرصے میں عملاً دس سے 15 گنا بڑھ چکے ہیں۔ بجلی کے 100 یونٹ کا جو بل سال 2014ءپانچ سو روپے سے تجاوز نہیں کرتا تھا‘ اتنے یونٹوں کا بل آج پانچ ہزار روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ یہی صورت دوسرے یوٹیلٹی بلوں کی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کم آمدنی والے اور بے روزگار طبقات آج بے لگام مہنگائی کی زد میں آکر کس اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کا لبریز ہوا پیمانہ صبر اچھلنے میں بھلا کوئی دیر لگے گی؟ حکمران عوام کو محض لالی پاپ اور طفل تسلیاں نہ دیں بلکہ انکے اور ملک کے اقتصادی حالات بہتر بنانے کیلئے خودانحصاری پر مبنی پالیسیاں وضع کریں‘ اصلاحات کے حقیقی اقدامات اٹھائیں ورنہ عوام کے اضطراب کو کنٹرول کرنا حکمرانوں کیلئے مشکل ہو جائیگا۔