مولانا قاری محمدسلمان عثمانی
آج ہم گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کررہے ہیں، ہماری صبح، ہماری شام، ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہیں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر ہم اپنے پر وردگار کی بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کررکھا ہے۔ اس فانی، عارضی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمح نظر بنایا ہوا ہے۔ خوف خدا، فکرآخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس ہمارے اندر سے معدوم ہوتا جارہا ہے، گناہوں کی کثرت نے ہم پر آفات و بلیات اور مصائب وآلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا،حالانکہ کتاب و سنت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ انبیائے کرام ؑکے علاوہ کوئی فرد بشر معصوم نہیں۔ ہر انسان سے خطا، لغزش اور غلطی کاصدور ہوسکتا ہے، لیکن معافی کے لائق وہ خطار کار ہے جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو، جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بد عمل محفوظ کرلیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناپوچھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب ایمان کو بار بار گناہوں کے ’’تریاق‘‘ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات مبارکہ توبہ و استغفار کی اہمیت بیان کرتی ہیں، سینکڑوں احادیث مبارکہ میں رجوع الیٰ اللہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے، بلکہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے: ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘پھر سچے دل سے استغفار وتوبہ اور اللہ جل شانہْ کے سامنے اقرارِ معصیت کی خیر و برکات دونوں جہانوں میں نصیب ہوتی ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤں کے ازالے کے لیے قرآن کریم نے ہدایت دی اور رہنمائی کی، چنانچہ سورہ آل عمران کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ ’’اگر کبھی کوئی گناہ کاکام ان سے ہوجاتا ہے،یا ان سے کوئی گناہ ہوجاتاہے(یعنی وہ اپنے اوپر ظلم کرلیتے ہیں) تو فوراً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور وہ اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگنے لگ جاتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو؟ اور یہ لوگ کبھی جان بوجھ کر اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے‘‘۔اس آیت میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ کو یاد کرے،ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں،یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، گناہوں پر جمتے نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا،امام ابن کثیر نے لکھا ہے کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے کہا: اے میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی اور وہ زندہ رہیں گے، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری عزت وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے،میں مسلسل ان کو بخشتا رہوں گا۔ ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہؐنے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی استغفار کو لازم پکڑے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی، ہر غم سے دوری (کا سامان) پیدا فرمائیں گے اور اْسے ایسی جگہ سے رزق نصیب فرمائیں گے، جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا۔‘‘(سنن ابو داؤد)دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا’’(قیامت کے روز) جو شخص اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے،اس کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ)استغفار کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں جناب نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا:’’جب بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ سے رب کریم اس سے زیادہ راضی (اورخوش) ہوتے ہیں، جتنا تم میں سے کوئی (اس وقت ہوتا ہے جب وہ) اپنی سواری پر جنگل و بیاباں میں جارہا ہو،اچانک وہ سواری اس سے گم ہوجائے، اس حال میں کہ اس پر اس کا کھانا پینا (بھی) رکھا ہو، وہ اس (کی واپسی) سے مایوس ہوجائے اور ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ جائے، ابھی وہ اس حال میں ہو کہ دفعتاً دیکھے وہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے، بس وہ اس کی لگام تھام لے، پھر مسرت و شادمانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھے: ’’اے اللہ! آپ میرے بندے اور میں آپ کا رب۔‘‘ (یعنی خوشی کے باعث غلط جملہ کہہ دے۔ (صحیح مسلم)رسول اللہ ؐنے اپنے مبارک عمل سے بھی اْمت کو استغفار کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، بے شک میں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں‘‘(صحیح مسلم)بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم توبہ کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آرہے تو پھر ایسی توبہ اور ایسے استغفار کا کیا فائدہ؟ حالانکہ حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہؐنے ارشاد فرمایا:’’جو شخص استغفار کرتا رہے، اْسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، اگرچہ دن میں ستر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے۔‘‘ (سنن ابو داؤد)گناہوں پر شرمسار ہونا، اپنی لغزش کا اقرار کرنا اور اپنے جرم کا اعتراف کرنا،وہ مبارک و بابرکت عمل ہے جس کا توڑ شیطان کے پاس نہیں،حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت ہے کہ حضور ؐنے ارشاد فرمایا’’بے شک شیطان نے (حق تعالیٰ سے) کہا تھا: ’’اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا، جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں موجود رہیں گی۔‘‘ (جواب میں) اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ’’میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! میرے بلند مرتبے کی قسم!جب تک میرے بندے مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔‘‘یہاں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہم کثرت سے چلتے پھرتے،اپنے کاموں میں مشغول ہوں، تب بھی استغفار کرتے رہیں۔