"کون دیکھتا ہے"۔

یہ زعم تو عرصہ ہوا دل سے نکال چکا ہوں کہ میرے لکھنے یا بولنے سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ مجید امجد  نے یہ حقیقت اپنے ایک شعر میں بیان کررکھی ہے جوایک گلی سے روز گزرنے اور بالآخر وہاں سے نہ گزرنے کے دیکھنے والوں کے فقدان کا ذکر کرتا ہے۔ ’’کون دیکھتا ہے؟‘‘والا سوال۔ دیگر افراد سے لاتعلقی اور بے اعتنائی کا ماحول جہاں ہر فرد اپنی فکر معاش میں الجھا ہوا ہے۔
اپنی محدودات دریافت کرلینے کے باوجود یہ گماں اکثر ذہن کو گمراہ کردیتا ہے کہ ہمارے ہاں چند افراد ہیں جو نہایت سنجیدگی اور لگن سے معاشرے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ سماج کو بہتر بنانے کے لئے صحت عامہ جیسے اہم شعبے میں متحرک لوگوں سے آشنائی نہیں۔ فروغ تعلیم کے حوالے سے مگر چند ناموں سے ملاقاتوں کا اتفاق ہوا تو خبطی ذہن نے انہیں کسی ’’گیم‘‘ ہی میں مبتلا پایا۔ ایسے ہی صدمے ’’انسانی حقوق‘‘ کے تحفظ کو بے تاب کئی افراد کو قریب سے جان لینے کی بدولت برداشت کرنا پڑے۔
کامل مایوسی سے مفلوج ہوئے ذہن کے باوجود زندہ مگر رہنا ہے اور زندگی رزق کا تقاضہ کرتی ہے۔ اس کیلئے روزگار درکار ہے اور میں صحافت کے علاوہ اس ضمن میں کسی ذریعے سے آگاہ نہیں۔ 1980ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی بطور رپورٹر شہری مسائل اور ثقافتی تقریبات کی رپورٹنگ سے بتدریج سیاسی امور کے بارے میں خبریں ڈھونڈنا شروع ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ شناخت یہ بنی کہ حکومتوں کے قیام یا زوال کے تمام مراحل میری نگاہ میں رہتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے لئے بیان کرتے ہوئے رزق کماتا ہوں۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود مذکورہ شناخت سے جند چھڑانے میں ناکام رہا ہوں۔ صبح اٹھتے ہی اس کالم کی ہٹی چلانے کے لئے کسی سیاسی موضوع کو زیر بحث لانا مجبوری ہے۔
اس تناظر میں گزشتہ کئی روز سے ایک کہانی نے ذہن کو الجھارکھا ہے۔ ہمارے ایک مشہور ومقبول صحافی ہیں۔ نام ہے ان کا انصار عباسی۔ تحقیقی وتفتیشی صحافت کے حوالے سے بڑا نام مانے جاتے ہیں۔چند روز قبل انہوں نے انکشاف کیا کہ پاک فوج سے ریٹائر ہوئے ایک جنرل صاحب ہیں۔ وہ دو سابق وفاقی وزراء کے ساتھ مل کر تحریک انصاف اور ہماری ریاست کے طاقتور ترین ادارے کے مابین موجود تلخیوں کو وطن عزیز کے ’’خیرخواہ‘‘ ہوتے ہوئے ختم کروانا چاہ رہے ہیں۔
اخبار غور سے پڑھنے کی علت کی وجہ سے میں نے اس ضمن میں پہلی خبر پڑھی تو ’’اتحاد ثلاثہ‘‘ میں شامل ا فراد کے نام ڈھونڈنے کے لئے تکے لگاتا رہا۔ صحافت جن دنوں فقط چند اخبارات تک محدود تھی تو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے اہم فوجی افسران سے بھی سلام دعا ہوجاتی تھی۔ ٹی وی صحافت کے فروغ نے مجھے لیکن اس ضمن میں بے اثربنادیا تو عسکری حکام اور اداروں سے بھی نا آشنائی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ سوچنے میں قطعاََ ناکام رہا کہ عباسی صاحب کونسے جنرل صاحب کا ذکر کررہے ہیں۔ ’’دو سابق وفاقی وزراء‘‘ کے بارے میں اگرچہ میری قیاس آرائی اب تقریباََ درست ثابت ہورہی ہے۔
مجھ جیسے مداحین کو چند روز تک متجسس اور بے چین رکھنے کے بعد بالآخر عباسی صاحب نے پاکستان کے خیر خواہ ریٹائر جنرل کا نام بھی لکھ دیا۔ نعیم خالد لودھی ان کا اسم گرامی ہے۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دوران وہ وزارت دفاع کے سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ وہ اس عہدے سے کیوں فارغ ہوئے یہ کہانی پھر سہی۔ بہرحال گزشتہ کئی برسوں سے لودھی صاحب عمران خان کے مداحین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی حکومت کو اپریل 2022ء  میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی مذمت کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ بانی تحریک انصاف کی عقیدت میں برتی ان کی جرات وبہادری نے مگر ان کے مادر ادارے کو ناراض کردیا۔ ’’مادر ادارہ‘‘ ناراض ہوجائے تو وہاں سے ریٹائر ہوئے افراد کو روزمرہّ زندگی کے حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ روزمرہّ زندگی کے حوالے سے چند اہم سہولتیں اور مراعات ہیں جو ریٹائر منٹ کے بعد میسر نہ ہوں تو جی پریشان ہوجاتا ہے۔ اپنے خیالات کی وجہ سے مشکلات کو مدعو کرنا ’’دیوانگی‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ لودھی صاحب نے لہٰذا دیوانگی سے جان چھڑانے کے بعد چند پرانے تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے اپنے معاملات درست کرلئے۔
اب مگر وہ وطن عزیز کی ’’خیرخواہی‘‘ میں ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف اور ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے مابین معاملات کو سلجھانے کیلئے انہوں نے ایک نونکاتی فارمولا بھی تیار کرلیا ہے۔ یہ فارمولا ہمارے ’’دی نیشن‘‘ میں منگل کی صبح چھپا ہے۔ لودھی صاحب کی جانب سے تیار ہوئے اس ’’مصالحتی فارمولے‘‘ کو میں نے دوبار غور سے پڑھا۔ نام لئے بغیر یہ توقع باندھ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نمائوں اور کارکنوں کے خلاف ’’سیاسی بنیادوں‘‘ پر بنائے مقدمات ختم کردئے جائیں۔ یہ ہوگیا تو بانی تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی قیادت جیلوں سے باہر آجائے گی۔ جیلوں سے رہائی کے بعد سیاستدان اپنے کارکنوں سے روابط بحال کرتے ہوئے انہیں متحرک بناتے ہیں۔ 
لودھی صاحب کا دیا مصالحتی فارمولا مگر اس امر کا خواہش مند ہے کہ جیلوں سے رہا ہونے کے بعد عمران خان، شاہ محمودقریشی اور چودھری پرویز الٰہی وغیرہ شہباز حکومت کو کم از کم 2025تک چلنے دیں۔ اسے گرانے کیلئے عوام کو متحرک نہ کریں۔ تحریک انصاف کی حمایت سے جو افراد قومی اسمبلی اور دیگر منتخب اداروں کے رکن منتخب ہوئے ہیں وہ مذکورہ اداروں کے اجلاسوں کے دوران شوروغل سے گریز کرتے ہوئے فقط ہاتھوں پر کالی پٹیاں باندھتے ہوئے احتجاج کا اظہار کریں۔
تحریک انصاف کے قائدین کی رہائی کے عوض یہ جماعت شہباز حکومت کو 2025ء تک قائم رکھنے میں سہولت کار کا کردار کیوں ادا کرے؟ اس سوال کا جواب میرا کندذہن ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ اپنے ذہن کی کوتاہی پرواز سے اکتاکر دل میں دبک کر بیٹھے رپورٹر کو جگایا اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنا شروع ہوگیا کہ پاکستان کے اپنے تئیں ’’خیر خواہ‘‘ بنے وزارت دفاع کے سابق سیکرٹری صاحب کو ’’وہاں‘‘ سے بھی تحریک انصاف سے ’’مک مکا‘‘ کے لیئے متحرک کیا گیا ہے یا نہیں۔ عمر تمام اخبارات کے لئے رپورٹنگ کرنے کے تمام ڈھب اور حربے بہت محنت سے سیکھے ہیں۔کافی دنوں سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ زنگ آلود ہوچکے تھے۔ انہیں ریگ مار لگایا اور ایک دن کے لئے بطور رپورٹر متحرک ہوگیا۔ کافی خجل خواری کے بعد نہایت ا عتماد سے آپ کو یہ خبر دے رہا ہوں کہ لودھی صاحب کو ’’وہاں‘‘ سے کسی بھی اعلیٰ یا کم تر مقام سے تحریک انصاف سے مصالحت کیلئے متحرک ہونے کا اشارہ تک نہیں ملا ہے۔ وہ اپنے تئیں مختلف مصالحتی فارمولے مارکیٹ میں پھینک رہے ہیں۔ ان کی جانب سے آئے فارمولے مگر اب ان کے مادر ادارے ہی کے نہیں بلکہ اڈیالہ جیل میں قید ہوئے خان صاحب کو بھی محض حیران ہی نہیں بلکہ ناراض کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن