رپورٹ ہے کہ دہشت گردی میں برق رفتار اضافہ ہوا ہے۔ اور سب سے زیادہ بلکہ ’’لائنز شیئر‘‘ دہشت گردی کا پختونخواہ کے حصے میں آیا ہے۔ صرف ایک مہینے یعنی اپریل میں 77 حملے ہوئے ،70 سپاہی اور شہری شہید ہوئے۔ اس خبر کی ٹھیک سرخی تو یہ بنتی ہے کہ ’’پختونخواہ میں دہشت گردوں نے ’’حقیقی آزادی‘‘ حاصل کر لی۔ اور اب تو حقیقی آزادی کا دائرہ کار پنجاب کے سرحدی علاقوں تونسہ ڈیرہ غازی خاں اور میانوالی تک وسیع ہو رہا ہے۔ کیا کیا جائے اور کیا کہا جائے۔ صوبے میں سیاں بھئے کوتوال اور کوتوال بھی کون سے، بڑے ہی راج دلارے۔ کوئی بڑے پیار سے بلا کے افطار ڈنر کررہا ہے، کوئی بن بلائے ہی تمام مقدمات میں ’’تاحیات‘‘ ضمانتیں منظور کرتا ہے۔
باخبر لوگ کہتے ہیں کہ کچے کے ڈاکوئوں کا تعلق بھی ’’حقیقی آزادی‘‘ سے ہے کہ ان کے پاس جدید ترین امریکی ہتھیار، یہاں تک کہ میڈ ان یو ایس اے، میڈ فار یو ایس آرمی بکتر بند گاڑیاں بھی ہیں۔ امریکہ نے یہ اسلحہ افغانستان میں چھوڑا جو طالبان کے پاس آیا اور طالبان نے اسے تحریک حقیقی آزادی عرف ٹی ٹی پی عرف (خیر رہنے دیجئے) والوں کو دیا اور اب گویا تین صدیوں میں حقیقی آزادی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ چشمہ فیض کی چشمِ افغانستان سے بارہ ہزار کی تعداد میں حقیقی آزادی کے تربیت یافتہ مجاہدین ’’امپورٹ‘‘ کئے اور اب دیکھئے، کیسی رونق لگ گئی۔
____
امپورٹ سے یاد آیا، نگران حکومت نے بلاضرورت اربوں کھربوں کی گندم درآمد کر ڈالی اور نتیجہ یہ کہ پنجاب میں اس سال ہونے والی گندم کی بمپر پیداوار ڈمپ کرنا پڑ رہی ہے، کسان بددعائیں دے رہے ہیں اور اگلے سال گندم کاشت نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
گندم کی درآمد کا یہ ’’منافع بخش‘‘ فیصلہ نگران حکومت کی دو نابغہ روزگار ہستیوں یعنی ڈاکٹر شمشاد اختر (ڈاکٹر کے لفظ میں ’’ر‘‘ کی جگہ کوئی اور حرف تہجی لگانے کو جی چاہتا ہے) اور گوہر اعجاز نے کیا۔
یاد آ رہا ہے، جب نگران حکومت بنی اور وزیروں کی فہرست میں ان ہر دو نابغوں کے نام دیکھے تو اسی کالم میں دو بار لکھا تھا کہ پاکستان کی خیر نظر نہیں آتی اور پھر وہی ہوا۔
سینئر صحافی ر?ف کلاسرا کی رپورٹ ہے کہ اس فیصلے سے کسانوں کو تین سو اسی ارب یعنی لگ بھگ چار کھرب روپے کا نقصان ہوا۔ ارے بھئی، کسی کا نقصان ہوا تو ہر دو نابغوں کا فائدہ بھی تو ہوا۔ مسمّی گوہر اعجاز اس سودے میں اربوں کھربوں کا منافع ’’اٹھا‘‘ چکے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کاکڑ صاحب تھے، پتہ نہیں انہیں حصہ بقدر جثہ ملا کہ نہیں۔ بظاہر ، ابھی تک انہوں نے ’’احساس محرومی‘‘ کا شکوہ نہیں کیا اور بظاہر نفس مطمئنّہ ہی نظر آتے ہیں۔
کسان اعجاز گوہر کو جانتے ہیں نہ شماد اختر کو، انہیں سامنے مریم نواز نظر آ رہی ہیں چنانچہ ان کی دعائوں بددعائوں کا رخ انہی کی طرف ہے۔ گوہر و شمشاد بھریں مریم۔ اور مریم کہاں سے بھریں، پنجاب کا خزانہ تو جانے والی نگران حکومت خالی کر گئی، سارا پیسہ پہلے سے درجہ کمال کی ترقی یافتہ ایلیٹ ہائوسنگ کالونیوں میں مزید ترقیاتی کاموں پر لگا گئی۔ یعنی مرے کو مارے شاہ مدار، چڑھے کو چاڑھے شاہ مدار والا کام کر گئی۔
_____
مسلم لیگ کے ایک رہنما پتہ نہیں ایک پروگرام میں کیوں پھٹ پڑے اور پھر برس پڑے کہ حکومت کا مسئلہ کشمیر حل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔ اس پھڑکتے طرح مصرعہ پر شاعر آتش بیان مولانا فضل الرحمن نے گرہ لگائی کہ حکومت سے کیا مراد ہے۔ شہباز حکومت یا ’’اصل‘‘ حکومت۔
مصرعہ بھی تیز ہے اور گرہ بھی گرم۔ لیکن معاملہ لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ حکومت کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا ارادہ بنا لے تو بھی کون سی مکھن کی مٹکی پھوڑ لے گی۔ قبلہ پرویز مشرف کارگل کر کے مسئلہ کشمیر کی لٹیا پاتال میں دفن کر گئے۔ پہلے جہاد کشمیر پر لوگ تیار کئے، پھر انہی مجاہدین کو اپنی زباں سے دہشت گرد قرار دے دیا اور پکڑ کر اندر بند کر دیا۔ اب اگر، بالفرض کوئی نئے سرے سے جہاد کشمیر شروع کرتا ہے تو دنیا انہیں دہشت گرد ہی کہے گی۔ مذاکراتی عمل کے تحت ایک سنہری کھڑکی واجپائی کے دورہ لاہور کے موقع پر کھلی تھی۔ مشرف نے وہ کھڑکی سیسے سے بھروا دی، اوپر لوہے کے کواڑ ڈال کر تالے لگا دئیے اور تالوں میں الفی بھر دی…پہلے کارگل کیا پھر نواز حکومت کو برطرف کر دیا۔
اب یہ سیسہ پلائی کھڑی توڑنا کسی اصلی یا غیر اصلی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ مصرعہ اور طرح مصرعہ البتہ اچھے ہیں، اس طرح کا مشاعرہ اور بیت بازی ہوتی رہنی چاہیے۔ باقی اللہ بھلا کرے۔
_____
ازخود نوٹس کے تحت متحرک ہونے والے ریٹائرڈ بزرگوار (وہی انجمنِ خیر خواہان عمران کے مدارالمہام) کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ دو اڑھائی ماہ یا شاید اس سے بھی پہلے وہ ’’اوپر‘‘ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ’’اوپر‘‘ والوں سے انہوں نے سفارش کی کہ بچّہ ہے، معاف کر دو، جواب میں، غیر متوقع یا متوقع طور پر انہیں سخت جھاڑ پڑی۔ ایسی عمر میں، جب ریٹائرڈ ہوئے بھی مدّت ہو چکی ہو، جھاڑ پڑنا اچھا نہیں لگتا۔ بزرگوار کو بھی اچھا نہیں لگا چنانچہ گھر جا کر ’’ہائبر نیٹ‘‘ ہو گئے اور عرصہ جھاڑ کا صدمہ بھلانے، تنہائی میں تکّے کباب، اور بیف پلائوکھاتے گزرا۔ یعنی فراغتے و ’’کبابے‘‘ و گوشہ چمتے والا ماجرا رہا (نوٹ: کبا بے بروزن کتابے ہے) اب خدا خدا کر کے صدمہ مندمل ہوا تو انجمن خیرخواہان عمران بنا کر، ازخود نوٹس کے تحت پھر سے حرکت پذیر ہو گئے۔