بن مانس ایسا جاندار ہے جسے بہت زیادہ ذہین تصور کیا جاتا ہے مگر اب انکشاف ہوا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح جڑی بوٹیوں سے اپنا علاج بھی کر سکتا ہے۔یہ پہلی بار ہے جب کسی جنگلی جاندار کو زخموں کے علاج کے لیے ایسی جڑی بوٹیاں استعمال کرتے دیکھا گیا جو علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔جرمنی کے میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین نے یہ مشاہدہ انڈونیشیا میں ایک تحقیق کے دوران کیا۔انہوں نے بتایا کہ ورم اور درد کش خصوصیات والے پودے کے پتے اور رس کو ایک نر بن مانس کی جانب سے چہرے کے کھلے زخم پر لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ چیمپئنزی بھی زخموں کے علاج کے لیے کیڑوں کو استعمال کرتے ہیں، مگر یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کیڑوں سے زخم ٹھیک ہوتے ہیں یا نہیں، مگر ہم نے ایک بن مانس کو ایسا پودا زخموں کے علاج کے لیے استعمال کرتے دیکھا جو واقعی طبی لحاظ سے مفید تھا۔انہوں نے یہ دریافت انڈونیشیا کے ایک برساتی جنگل پر تحقیقی کام کرتے ہوئے کی۔تحقیق کے دوران وہ ایک بن مانس Rakus کو ٹریک کر رہے تھے، جب جانور کے چہرے پر ایک کھلا زخم دیکھنے میں آیا جو ممکنہ طور پر کسی اور نر بن مانس سے لڑائی کا نتیجہ تھا۔لڑائی کے 3 دن بعد بن مانس کو Fibraurea tinctoria نامی پودے کے پتےاور رس کو جمع کرتے ہوئے دیکھا گیا اور پھر اس نے کچھ غیر متوقع کام کیا۔محققین کے مطابق پہلے بن مانس نے پتوں کو چبا کر ان کا رس نکالا اور پھر انگلی کی مدد سے براہ راست چہرے کے زخم پر لگایا۔اس نے یہ کام کئی بار کیا اور پھر پورے زخم کو چبائے گئے پتوں سے ڈھانپ لیا۔5 دن بعد زخم بند ہوگیا جبکہ کچھ ہفتوں بعد زخم ٹھیک ہوگیا اور معمولی نشان رہ گیا۔ماہرین نے بتایا کہ بن مانس نے جس پودے کو استعمال کیا وہ جراثیموں سے تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ درد اور ورم کو دور کرتا ہے اور انڈونیشیا میں اسے متعدد امراض کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بن مانس نے بظاہر دانستہ طور پر پودے کو علاج کے لیے استعمال کیا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ کسی حد تک جانتا تھا کہ یہ پودا علاج کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے، مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ اس کی خصوصیات سے کس حد تک واقف ہے۔