مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ اورحروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا نے لیگی دھڑوں کوملا کر متحدہ مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔ کنگری ہاؤس میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کی کامیابی ملک کیلئے ضروری ہے، حالات بتاتے ہیں جو رہیں گے وہ مسلم لیگی ہونگے، ہم کوشش کریں گے کہ ایک مضبوط پارٹی بنیں اور الیکشن جیتیں۔
18 ستمبر 2010 کوکراچی میں مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا نے کہا تھا کہ آج سے مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل ایک دوسرے میں ضم ہو گئی ہیں اور نئی متحدہ مسلم لیگ کا نام آل پاکستان مسلم لیگ ہوگا۔ یہ بات انہوں نے مسلم لیگ ق کے رہنمائوں چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی تھی۔ اس موقع پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا تھاکہ محب وطن قوتیں سامنے نہ آئیں تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم لیگ کے اتحاد کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس موقع پر شجاعت نے پیر پگارا کو متحدہ مسلم لیگ کی سربراہی کی دعوت بھی دی۔
عجب بات ہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ کے اتحاد کے حوالے سے ہونے اجلاس میں ق لیگ کا کوئی بھی رہنما موجود نہیں تھا۔چودھری شجاعت حسین نہ مشاہد حسین اور نہ ہی سب سے بڑے صوبے کا صدر چودھری پرویز الٰہی۔ ایک ماہ دس دن میں کیا بدل گیا؟۔ کیا کوئی انقلاب آ گیا یا ق لیگ کے لوگوں کو کوئی سہانا خواب دکھا دیا گیا، جس کی تعبیر پانے کے لئے ق لیگ کے رہنمائوں نے راتوں رات نئے دوست ڈھونڈ لئے ہیں۔ قوم کو یاد ہے کہ مسلم لیگو ں کے اتحاد کے لئے جناب مجید نظامی صاحب کافی عرصہ سے متحرک ہیں ۔ گزشتہ سال ایوانِ کارکنانِ تحریک ِ پاکستان میں مسلم لیگ کے یومِ تاسیس کے موقع پر نظامی صاحب نے چودھری شجاعت حسین کو مدعو کیا تو انہوں نے مسلم لیگوں کے اتحاد کی تجویز پر لبیک کہا تھا۔ اسی جگہ چند روز بعد ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو دعوت دی گئی تو انہوں کوئی ٹھوس اور واضح بات نہ کی۔ چودھری شجاعت نے لیگوں کے اتحاد کا اختیار نظامی صاحب کو دیا ، میاں نواز شریف نے اس معاملے میں بھی فراخ دلی کا مظاہرہ نہ کیا ۔ اُن دنوں پیر پگارا لاہور تو نہ آ سکے تاہم یہ اعلان ضرور کیا کہ نظامی صاحب مسلم لیگوں کو متحد کریں ، ہم ساتھ ہونگے۔ ہمیں سربراہی بھی نہیں چاہیئے۔ یہ اعلان پیر پگارا کی طرف سے مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے ایثار کا مظہر تھا ۔لیکن مفادات کی دلدل میں پھنسے مسلم لیگی دھڑوں کے سربراہوں نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ بالآخر چھوٹے مسلم لیگی دھڑوں نے پیر صاحب کا دامن تھام لیا۔ جس سے مسلم لیگوں کے اتحاد کی شروعات ہوگئیں۔ ق لیگ کی اعلی ٰ قیادت نے اپنی پارٹی کو ان کی جھولی ڈالا تو محب وطن حلقوں میں اس کی بھر پور پزیرائی ہوئی۔اب امید بندھی تھی کہ جلد ن لیگ بھی اسی متحدہ مسلم لیگ کا حصہ ہوگی۔ ابھی بڑے میاں کی گردن کا سریا نکل بھی نہیں پایا تھا کہ بابر اعوان نے کیدو قسم کے لوگوں کو ساتھ لے پرویز الٰہی کو ایسا قابو کیا کہ متحدہ مسلم لیگ کا خواب بکھر کر رہ گیا۔
آج مسلم لیگوں کے اتحا د کی راہ میں میاں نواز شریف کی انا اور ق لیگ کے کچھ لوگوں کا سرعت کے ساتھ اقتدار میں آنے کا لالچ رکاوٹ بن گیا ہے۔ بڑے دھڑوں کے مسلم لیگی قائدین مسلم لیگ کو اقبال اور قائد کی مسلم لیگ بنانے کیلئے حب الوطنی اور ایثار کا مظاہرہ کریں۔ جمہوریت کی مضبوطی‘ پاکستان کو قائد کے فرمودات اور اقبال کے افکار کے مطابق چلانے کیلئے تمام مسلم لیگوں کا انضمام ناگزیر ہے۔ یہی سب دھڑوں کے بہترین مفاد میں ہے۔اتحاد سے آپ بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ دھڑے بندی سے حاصل تو کچھ نہیں ہو گا البتہ گنوایا بہت کچھ جا سکتا ہے اور گنوایا جا رہا ہے۔