نوشہرہ میں بشیر بلور نے ہسپتال کا دورہ کیا۔انتظامیہ نے سٹور کیپر کو ڈاکٹر بنادیا۔ بشیر بلور خیبر پی کے، کے سینئر وزیر ہیں اس لئے اُن کے ساتھ ہاتھ بھی کافی سینئر ہوا اور اُن کی ڈاکٹر شناسی جونیئر ہوگئی لیکن ہسپتال انتظامیہ نے ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں سٹور کیپر کو ڈاکٹر بنا کر پیش کردیا اور وہ ایسا ڈاکٹر سٹور کیپر نکلا کہ بلور صاحب کو بریفنگ بھی دے ڈالی، ہمارے سرکاری اداروں میں فرضی منصبی کی ادائیگی سے زیادہ اداکاری کا جوہر پایاجاتا ہے ہر محکمہ شوٹنگ اور ایکٹنگ میں اتنا ماہر ہے کہ بشیر بلور جیسے سینئر وزیر بھی حقیقت کو فلمی روپ میں دیکھ گئے اور ہسپتال کو پورے نمبر دےکر چلے گئے، کاش اُنکے جانے کے بعد ہسپتال سے قہقہوں کی ریکارڈنگ کوئی انہیں سنادیتا تو انہیں یقین ہوجاتا کہ پاکستان میں فلم انڈسٹری عروج پر ہے اگر سٹور کیپر کی جگہ اصل ڈاکٹر بھی ہوتا تو اداکاری ہی کرتا اور اگر سٹور کیپر کی جگہ سویپر کو بھی سوٹ بوٹ پہنا دیاجاتا تو وہ بھی ڈاکٹر کا رول بخوبی ادا کرلیتا،یہ قوم کتنی با صلاحیت ہے اس سے کوئی اصل کام لینے والا نہیں جو ہیں وہ بشیر بلوور جیسے ہیں کہ صرف بیان دینا جانتے ہیں،ایکٹرز ہیں اور نگارِ خانہ وطن میں ہر طرح کا ڈرامہ سکرپٹ کے بغیر ہنگامی بنیادوں پر رچا سکتے ہیں ۔صدر گرامی قدر بیک وقت کتنے رول کر رہے ہیں اور اُن کا لمبا چوڑا عملہ کیسے کیسے روپ دھارتا ہے، البتہ منظور وٹو کو جو رول دیا گیا اس سے انہوں نے انصاف نہیں کیا۔
٭....٭....٭....٭....٭
گوجرانوالہ میں منظور وٹو اور تنویر اشرف کائرہ کیلئے استقبالی بینرز تنویر اشرف کائرہ کی جگہ تنویر اشرف خیرا لکھا گیا جو شہر بھر میں مذاق بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی حقیقت پسندی دیکھئے کہ تنویر اشرف کائرہ کو تنویر اشرف خیرا لکھ دیا، منظور وٹو اس حقیقت پسندی سے بال بال بچ گئے ورنہ عین امکان تھا کہ انہیں خدانخواستہ منظور نتھو لکھ دیاجاتا، ہم نے تو ایک جگہ پیپلز پارٹی کے ایک استقبالیے میں زمین پر چونے سے "weel come" لکھا ہوا بھی دیکھا۔دو روز قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کیلئے بکس لائے گئے ان پر بھی غلط انگریزی لکھی ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی Ballot کو Balot لکھا تھا،کسی نے نشاندہی کی تو کہا گیا شکر کروBullet نہیں لکھ دیا۔وزراءجو رکھے گئے ہیں وہ زرداری سے روز جھاڑ کھاتے ہیں اور وہ ڈالر سمجھ کر کھا جاتے ہیں،رحمان ملک جو سلیس انگریزی روانی سے بولتے ہیں، وہ مشکل صورتحال کو نہ سمجھنے کی بے مثال صلاحیت رکھتے ہیں بہرحال پیپلز پارٹی لیڈرز کی یہ بڑی خوبی ہے کہ اُن کے اپنے ہی ان کو نتھو خیرا کہہ دیں، لکھ دیں وہ بُرا نہیں مناتے وہ تو بینرز کی لمبائی چوڑائی پر ہی راضی ہوجاتے ہیں پیپلز پارٹی کو آئندہ بینرز لکھوانے کے سلسلے میں بہت احتیاط سے کام لیناچاہئے اس طرح کے بینرز سے تو لوگوں کو اُس کی اصلیت کا پتہ چل جائیگا، یہ اعزاز کیا کم ہے کہ کچھ کئے بغیر پانچ برس پورے کرلئے،باقی چند دن بھی اس طرح کے بینرز لگانے میں گزر جائینگے۔
٭....٭....٭....٭....٭
صادق عمرانی نے کہا ہے: رئیسانی شام کے بعد ہوش میں نہیں رہتے، اس کا مطلب ہے کہ وہ جو پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں وہ سب شام کے بعد ہی چھوڑتے ہیں اور دن کے وقت کیا چھوڑتے ہیں،اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اسلم رئیسانی کی شکل و شباہت ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن پر جیسے غالب کا یہ مصرع لکھا ہوا ہے ....ع اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے۔ رئیسانی کہتے ہیں جو میری پی پی سے رکنیت ختم کرے گا میں اس سے دس روپے دوں گا۔ان کی رکنیت تو معطل ہوچکی ہے اب وہ قلات پی پی کے صدر کو دس روپے دیں رئیسانی صاحب نے یہ بیان اپنی رکنیت کے خاتمے کے بعد اور دن کی روشنی میں دیا ،لگتا ہے کہ وہ رات کو ہوش میں نہیں ہوتے اور دن میں ہوش ان کے قریب نہیں ہوتا۔ ان دنوں اُن پر اگرچہ کڑا وقت آیا ہوا ہے مگر وہ اپنی مدت پوری کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں،اُن کے پانچ سالوں پر محیط ملفوظات پیپلز پارٹی کیلئے نادر ورثہ ہے جسے مثال بنا کر شام کے بعد ہوش میں نہ رہنے کے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں،پیپلز پارٹی سے اُن کی رکنیت کی معطلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ....ع ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ اس گھر کے سبھی افراد چاند سورج ہیں اور جیالے تارے ہیں مگر لیڈرز کی آنکھوں کے نہیں، صرف آنکھوں کے۔ اسلم رئیسانی کی سنجیدگی میں ایک ایسا مزاح ہوتا ہے جو بہت سی باتیں کہہ جاتا ہے وہ کھل کر بلکہ پورا منہ کھول کر بات کرتے ہیں اور لاجواب کرتے ہیں۔ بلوچستان کی یہ حالت انہوں نے نہیں بنائی بلکہ اُن عناصر نے بنائی جن پر اُن کا بس نہیں چلتا، بلوچ منحرفین جن کی ایجاد ہیں وہی کہتے ہیں بلوچستان کے منحرفین سے نرمی برتو،یہ موجد ہی تو ہمارے حکمران کا محسن ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
بھارت میں راجستھان کی پنچائیت نے ایک شہر میں لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی، پابندی کا مقصد لڑکوں سے دوستی کرنے سے روکنا ہے۔ برصغیر میں جب بھی کسی اصلاح کا آغاز کیاجاتا ہے خواتین سے کیاجاتا ہے جبکہ مرکزی کردار مرد حضرات ہوتے ہیں، اسی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے راجستھان کی ایک پنچائیت نے لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رکھنے کیلئے اُن سے موبائل چھین لئے اور لڑکوں کو کھلی چھٹی ہے کہ موبائل رکھیں حالانکہ بالعموم لڑکے ہی لڑکیوں کے نمبرحاصل کرتے ہیں اور اُن کو پیار کی ٹریننگ دیتے ہیں،مردوں کی طرح عورتوں کی بھی پنچائیت ہونی چاہئے جو مردوں کو فکس اپ کرے،موبائل فون کا کیا قصور ہے یہ تو وہ آلہ ہے جس سے کئی ہدایت پاتے ہیں اور کئی گمراہ ہوجاتے ہیں۔موبائل پر دوستی کا یہ فائدہ ہے کہ لڑکی محفوظ بھی رہتی ہے اور اپنے لئے کوئی اچھا سا رشتہ بھی ڈھونڈ لیتی ہے کیونکہ ان دنوں اچھے لڑکوں کا قحط ہے،اچھے سے مراد برسر روزگار، باکردار اور صحت مند لڑکے،پنچائیت کے بارے کبھی کسی نے نہیں سوچا آخر اس کی قانونی حیثیت کیا ہے اور لوگ عدالتوں سے رجوع کرنے کے بجائے خود ساختہ ان پڑھ پنچوں کے پنچ کے آگے کیوں کھڑے ہوتے ہیں یہ پنچ بھی عطائی جج ہوتے ہیں اور عطائیت کا خاتمہ ضروری ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭