مجید نظامی کی خدمات کا بروقت اور جامع اعتراف

Nov 03, 2012

مدثر اقبال بٹ


عہد حاضر کے امام صحافت محترم مجید نظامی اس لحاظ سے بھی بڑے خوش نصیب ہیں کہ ان کی طویل صحافتی، ملی اور سماجی خدمات کا باضابطہ اور برملا اعتراف ان کی حیات میں ہی کیا جا رہا ہے۔ ہم جس عہد اور سماج میں رہتے ہیں وہاں اہل علم و ہنر زندگی میں نظر انداز، راندہ درگاہ ہی رہتے ہیں، بعد ازاں چاہے ان کے نام پر میلے کرائے اور ایوارڈز ہی کیوں نہ بانٹے جاتے رہیں!۔ قبروں کی پجاری سوسائٹی میں اہل دانش زندہ مقبروں کی مانند رہتے ہیں، بقول درشن سنگھ آوارہ
قبریں، دو شالے چڑھدے نیں!
گھر، بچے، بھکھے مردے نیں
موئیاں دی پوجا ہوندی اے
ایہ، چیوندیاں ای کوڑے لگدے نیں؟
سب سے پہلے، ہر جابر سلطان کے روبروکلمہ حق کہنے والے قلم کے پاسبان کے نام پر لاہور کی مشہور شاہراہ لارنس روڈ کو محترم مجید نظامی کے نام سے منسوب کرکے وہاں ہر اطراف ”شارع مجید نظامی“ کے بورڈز بھی آویزاں کر دیئے گئے۔ فلسطین سے کشمیر اور بوسنیا سے میانمار تک مسلم امہ کو درپیش خطرات و مشکلات کے خلاف نعرہ حق بلند کرتے رہنے والے محترم مجید نظامی کی دانشمندانہ خدمات کا دوسرا اہم اور ”جامع اعتراف“ جامعہ پنجاب کی جانب سے کیا گیا ہے، اس کیلئے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط محترم مجید نظامی کی ادارتی صحافتی، سماجی اور ملی خدمات امت مسلمہ کیلئے رہنما حیثیت رکھتی ہیں۔ زندہ اقوام ہمیشہ اپنے قومی ہیروز کی خدمات کو یادرکھتی اور استفادہ کرتی ہیں۔ محترم مجید نظامی کی جملہ قومی خدمات کو ان کی زندگی میں ہی سرا ہے جانے کا یہ سرکاری اہتمام اس حوالہ سے بھی اہم اور بہت اچھی ”شروعات“ ہے کہ ہم نے بھی من حیث القوم سوچنا شروع کر دیا ہے،
الحمد اللہ، جزاک اللہ
میرٹ پر تو محترم مجید نظامی کی دانشمندانہ، مدبرانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف اس امر کا متقاضی ہے کہ اسے صرف کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود کرنے کے بجائے قومی سطح پر بھی برملا اعتراف و تحسین سے نوازا جائے۔ یہ ذمہ داری تو جن ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں کی ہے ظاہر ہے کہ انہی کو اس جانب توجہ مبذول کرنا ہوگا۔ محترم مجید نظامی کی حیات جہد مسلسل سے عبارت اور اسی کی تعبیر ہے، جابر سلطان اور غاصب آمریت سے ببانگ دہل ٹکرا جانے والے اس بطل صحافت کی زندگی بہت سے طوفانوں کی زد میں بھی رہی ہے، بقول منیر نیازی مرحوم
ایک اور دریا کا سامنا تھا، منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
لائق تحسین ہے وہ کردار کہ پہنچ اور رسوخ کے باوجود کبھی حکمرانوں سے ”سروس چارجز“ بھی نہیں لئے، جبکہ کئی حاکم وقت اور متوقع حکمران ان کے ممنون احسان ہیں جن کا میں بھی بلاواسطہ ”شاہد“ ہوں۔ بھٹو دور کی بات ہے، ایک میچور نوجوان سفید شلوار قیمض، رف استعمال والی چپل پہنے، شیو بڑھائے، گھبرائے ہوئے انداز میں محترم مجید نظامی کے پاس پہنچا اور بتایا کہ سیون اپ فیکٹری میں یونین لیڈر عبدالرحمن قتل ہو گیا ہے، مزدور احتجاج کرتے ہوئے ماڈل ٹاﺅن پہنچ چکے ہیں اور ہجوم میں شامل جیالے ایچ بلاک کے ”اتفاق ہا¶سز“ کو بھی جلوا دینے کے درپے ہیں۔ محترم مجید نظامی نے نہایت توجہ سے ساری بات سنی، گھبرائے ہوئے نوجوان کو بیٹھنے کا کہا اور اپنے اخبار کے ایک سینئر رپورٹر کو بلایا، نظامی صاحب نے سارا معاملہ بریف کرکے کہا کہ ’یہ ہمارے محترم دوست میاں شریف کے صاحبزادے شہباز ہیں انہیں اپنے سرائیکی گورنر پنجاب ملک غلام مصطفٰے کھر کے پاس لے جاﺅ اور ان کا مسئلہ حل کراﺅ (وہ سینئر رپورٹر سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور طویل عرصہ تک ڈی جی پی آر پنجاب بھی رہے ہیں) وہ رپورٹر شریف زادے کو گورنر ہاﺅس لے گئے اور کھر سے ملوا کر جیالوں کو کچھ کئے بغیر اتفاق ہاﺅسز ماڈل ٹاﺅن کا محاصرہ ختم کرکے واپس چلے جانے کے احکامات کھر صاحب کے ذاتی فون نمبرز سے جاری کرائے۔
مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ محترم مجید نظامی کی قابل قدر خدمات کا اعتراف کرنے میں پہل ان کی جنم بھومی اور سچی وکھری پاکستانی دھرتی پنجاب کی سرسبز و شاداب سرزمین نے ہی کی، مولانا جلال الدین افغان کی طرح نہیں ہوا کہ جنہیں اپنی ہی سر زمین پر صرف نگاہ اور نظر انداز کئے جانے کا شکار ہونا پڑا جب کہ بعد ازاں وہ جس دیس میں بھی رہے وہاں ان کی علمیت، فضیلت اور صلاحیتوں کے باعث ممتاز سماجی و حکومتی مناصب ملتے رہے اور ایسے ممالک کی تعداد نصف درجن سے زائد ہے کہ جہاں وہ بہت معتبر بہت محترم رہے۔
مجھے اپنی ناقص فہم کے مطابق اتنا ہی عرض کرنا تھا کہ اس موضوع پر پنجاب کی سوہنی دھرتی پر پنجاب کے سپوت کی سماجی، صحافتی و قومی خدمات کے بروقت، برملا اور باضابطہ اعتراف پر وہ سبھی لائق ستائش ہیں کہ جنہوں نے ایسا سوچا، سمجھا اور اس پر عملدرآمد میں کسی بھی طرح سے شراکت دار رہے، مہاراجہ رنجیت سنگھ والا پنجاب تو اب اس قدر تہذیبوں کے حد درجہ اختلاط اور زرخیز خطوں پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباﺅ کے باعث میاں محمد اور وارث شاہ کا پنجاب بھی نہیں رہنے دیا جا رہا۔ گزشتہ ساڑھے چار برس سے پنجابی میڈیا بھی سوتیلے پن اور ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے اور سرکاری اشتہارات کو منظور شدہ مختص کوٹہ کے باوجود پنجابی میڈیا کیلئے شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے۔ امید ہی نہیں بلکہ ہمیں اس بات کا یقین واثق ہے کہ اور کوئی توجہ دے یا نہ دے محترم مجید نظامی اس حلق تلفی، ناانصافی کا ”از خود نوٹس“ ضرور لیں گے۔

مزیدخبریں