اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ نیشن+ نیٹ نیوز) وفاقی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سب ٹھیک ہے امن ہی من ہے، حکومت بلوچستان ناکام نہیں بلکہ آئینی طریقے سے بلوچستان مسئلے کا حل نکالا جا رہا ہے۔ عدالت بلوچستان حکومت کو ناکام قرار دے سکتی ہے نہ ایمرجنسی لگا سکتی ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ میں وفاقی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالت بلوچستان میں ایمرجنسی نافذ نہیں کر سکتی کیونکہ صوبوں میں ایمرجنسی کا نفاذ صرف صدر کے حکم سے ہی ممکن ہے۔ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل ڈویژن بنچ کے روبرو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے وزارت داخلہ کی جانب سے بلوچستان کے امن و امان کے حوالے سے رپورٹ پیش کی، عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کو یہ اختیار نہیں کہ صوبائی حکومت کو حکم جاری کر سکے، وزیر داخلہ کو مسلسل عدالتوں میں بلا کر وزارت داخلہ کے منصب کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ حکومت اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہے اور بلوچستان میں امن و امان کی حالت بہتر بنانے کیلئے مختلف اقدامات کئے گئے ہیں۔ یہ درست نہیں کو بلوچستان کی صوبائی حکومت ناکام ہو چکی ہے، آئینی طور پر حکمرانی کا حق کھو چکی ہے، حکومت ناکام نہیں ہوئی کیونکہ دفاتر میں کام ہو رہا ہے، عدلیہ بھی کام کر رہی ہے، لوگوں کو انصاف مہیا کیا جا رہا ہے۔ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے، ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہو رہا ہے اور سماجی و معاشی ترقی بھی ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالت بلوچستان میں ایمرجنسی نافذ نہیں کر سکتی کیونکہ ایمرجنسی کے نفاذ کا اختیار صرف صدر کے پاس ہے۔ حکومت نے بلوچستان میں امن و امان کی حالت بہتر بنانے کیلئے بہت سے اقدامات کئے ہیں اور یہ نہیں کہا جانا چاہئے تھا کہ بلوچستان حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 12 اکتوبر کے عبوری حکم کے بعد وزارت داخلہ نے امن و امان اور عوام کی حفاظت کیلئے صوبائی حکومت ایف سی ور ایف بی آر کو عدالتی حکم پر عملداری یقینی نبانے کی ہدایات جاری کیں۔ نادرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ بلوچستان صوبائی کوٹے کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرتیاں کی جائیں۔ آغاز حقوق بلوچستان ایک اصلاحاتی پیکیج ہے جس سے سیاسی، معاشی اور انتظامی طور پر فائدہ ہوا ہے۔ لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جوڈیشل کمشن بھی کام کر رہا ہے۔ تمام صوبائی ادارے متحرک ہیں اور آئینی طور پر کام کر رہے ہیں، نہ کوئی آئینی بریک ڈاﺅن ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے بلوچ عوام کی پسماندگی دور کرنے کیلئے خصوصی طور پر 140 ارب روپے کے فنڈز بھی جاری کئے گئے۔ وزیراعظم نے کابینہ کی کمیٹی بنائی جس نے بلوچستان کے مسئلہ پر اپنی سفارشات وزیراعظم کو بھجوا دی ہیں۔
اسلام آباد (آئی این پی/ این این آئی) وفاقی وزیر داخلہ اے رحمان ملک نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے یہ حکم دینے پر مشکور ہیں کہ بلوچستان میں کوئی بریک ڈاﺅن نہیں ہوا‘ بلوچستان میں نہ تو ایمرجنسی لگائی جائے گی نہ سپیکر صوبائی اسمبلی کو ہٹایا جائے گا‘ غیرملکی طاقتیں صوبے میں بغاوت کو ہوا دے رہی ہیں‘ بھارت میں کشمیر سمیت کئی علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارتی سپریم کورٹ نے تو مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو ختم کرنے کا حکم نہیں دیا‘ بلوچستان میں ایمرجنسی نہیں لگائی جا رہی۔ آئندہ چار سے چھ ماہ کے دوران غیر ملکی طاقتیں پاکستان کے خلاف کئی خوفناک سازشیں کرنے والی ہیں‘ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہورہا ‘ ایف سی او پولیس کے یونیفارم پہن کر بھی ایل اے اور دیگر گروپ لوگوں کو مارتے اور اغواءکرتے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر کے ساتھ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بلوچستان سمیت ملک بھر سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وفاقی حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا جس نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی درخواستوں پر تمام کیسوں کی مکمل چھان بین کے بعد ان کے مقدمات درج کرنے کا حکم دیا ہے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے لاپتہ افراد کی تعداد 916 بتائی جبکہ سپریم کورٹ میں صرف 72 افراد کا کیس چل رہا تھا۔ عورتوںاور بچوں سمیت 6 ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کی سٹوری غیر ملکی میڈیا نے دی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے لاپتہ افراد کی تعداد 115 ہے۔ آئین کے تحت وفاق بلوچستان حکومت کی مدد کررہا ہے۔ صوبے کے حالات دیگر صوبوں سے بہتر ہیں۔ بلوچستان میں جرائم کی شرح پنجاب اور دیگر صوبوں سے انتہائی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں غیرملکی مداخلت کے ثبوت ہیں۔