گوجرانوالہ میں ایک بہت امیرانہ کالونی ہے جس کا نام ڈی سی او کالونی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک ڈی سی او نے بنائی تھی۔ اس کا نام مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ وہ ڈی سی او مشہور تھا۔ بڑا زبردست بیوروکریٹ تھا فوجی افسر تھا اور سول سروس میں آیا اور سول افسر بنا دگنی شان و شوکت اور جاہ و جلال کا آدمی تھا۔ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ فوج اور سول کا گٹھ جوڑ ملی بھگت تو ہمیشہ رہا۔ ”ونڈ کے کھاﺅ“ موج مستی کرو۔ حکومت اور عیش و عشرت کرو اور خوب دل لگا کے ظلم کرو۔ اس ڈی سی او کے نام کا حصہ تھا سلطان۔ افسران تو ہوتے ہی سلطان ہیں۔ پولیس افسران بھی کچھ کم سلطان نہیں ہوتے۔ سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے الزامات کا بازار گرم کرنے والوں نے کبھی افسران کو پوچھا بھی ہے۔ نیچے کا عملہ بھی پولیس افسران سے کم افسر نہیں ہوتا۔ کئی انسپکٹر صاحبان یعنی ایس ایچ او صاحبان سے افسران بھی گھبراتے ہیں۔ سیاسی بیٹے باپ سے بڑھ کر حکمران ہوتے ہیں۔ اب عدالتی بیٹے بھی میدان میں ہیں تو سرکاری بیٹے بھی پیچھے نہیں۔ افسران پولیس افسران کے بیٹے غنڈہ گردی اور افسری میں فرق مٹا چکے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اب گوجرانوالہ میں پولیس انسپکٹر کالونی بھی بنے گی۔ تھوڑی سی اور وضاحت کے لئے یہ نام پولیس انسپکٹر چیمہ کالونی ہونا چاہئے۔ گوجرانوالہ میں ایک آر پی او ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کا نام آج بھی عزت محبت سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کوئی غنڈہ شہر میں زندہ نہ چھوڑا۔ پولیس میں غنڈے اپنے آپ ہی مر گئے۔ لائن حاضر پولیس انسپکٹر طاہر فاروق چیمہ کو اپنے نام کے ساتھ چیمہ تو نہیں لکھنا چاہئے۔ ڈیفنس سوسائٹی لاہور کی طرح گوجرانوالہ کی ڈی سی او کالونی میں پولیس انسپکٹر طاہر فاروق کا چار کنال کا گھر ہے۔ کوئی اسے پوچھنے والا ہے کہ یہ گھر تم نے کیسے لے لیا۔ اس سے پہلے ڈی سی او صاحب سے پوچھا جائے کہ انہوں نے اتنی بڑی اتنی امیرانہ کالونی کیسے بنا لی۔ کروڑوں کے پلاٹ بکے اب وہاں محلات کا ہجوم ہے۔ یہ کتنی دیدہ دلیری ہے کہ کالونی کا نام ڈی سی او کالونی ہے۔ ظالموں نے دلیری اور دلبری میں فرق مٹا دیا ہے۔ انسپکٹر صاحب خود تو بڑی بلا تھے ان کا داماد اور بیٹا بھی کچھ کم چیز نہیں۔ لوگ ان کے پاس سے کنی کترا کے بچ بچا کے گزرتے ہیں۔ ان کے پاس جائز اور ناجائز اسلحے کا انبار ہے۔ جائز اسلحہ بھی ان کے ہاتھوں میں جا کے ناجائز اسلحہ بن جاتا ہے۔ سیاسی بچوں کا راج اس بدقسمت ملک پر ہے۔ عدالتی بیٹے بھی سر نکالنے لگے ہیں۔ اب سرکاری بچے سینہ تان کر چلتے ہیں تاکہ یہ رسم عام ہو کہ کوئی سر اٹھا کے نہ چلے۔ اب تو کوئی سر جھکا کے بھی چلے گا تو مارا جائے گا۔ بس جابر پولیس والوں کے بیٹوں کا موڈ بن جائے۔
مرغی ذبح کرانے کے معمولی سے معاملے پر ناراض ہو کر گولیاں چل گئیں بلکہ گولیاں چلا دی گئیں۔ ایک بہت معزز اور شریف انسان حاجی ٹیپو سلطان کا بھائی تو کئی دنوں سے ہسپتال میں ہے اور خود حاجی ٹیپو بھی زخمی ہوئے ہیں۔ کئی دنوں تک تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او نے کوئی کارروائی ہی نہ کی۔ انسپکٹر طاہر فاروق چیمہ اس تھانے کا سربراہ یعنی ایس ایچ او رہا ہے۔ اس طرح کے ”پلسیوں“ کو تھانہ کینٹ کا انچارج لگانے والے بھی بڑے پولیس افسران ہی ہوتے ہیں۔ یہ کام کبھی ان کی مجبوری ہوتی ہے اور کبھی ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ کینٹ وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں فوجی افسران رہتے ہیں شاید ان کے لئے ”ایسے“ ایس ایچ او ضروری ہوتے ہیں۔ وہ بھی ”باوردی“ ہوتے ہیں۔ وردی پہن کر لوگوں کا دماغ خراب کیوں ہو جاتا ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی پر ہونا چاہئے۔
اس دوران بات میڈیا تک پہنچی تو کچھ اقدامات کئے گئے۔ سنا ہے آر پی او کیپٹن امین وینس نے کارروائی کی ہے۔ تھانہ کینٹ کا ایس ایچ او معطل کر دیا گیا ہے۔ وہ ”پیٹی بھرا“ کی کچھ زیادہ ہی حمایت کر رہا تھا۔ یہ پلسیوں کی روایت ہے۔ اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ انسپکٹر طاہر فاروق چیمہ کے بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وہ اپنے ابا سے زیادہ انسپکٹر بنا ہوا ہے۔ ابا جی اپنے بیٹے کی ہر طرح سے سرپرستی کو تربیت کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے لئے کیپٹن صاحب آر پی او گوجرانوالہ بہرحال تعریف کے مستحق ہیں۔ وہ پہلے خاکی وردی میں تھے اب کالی وردی میں ہیں۔ فوج میں رہتے تو شاید ہی میجر جنرل بنتے۔ پولیس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل تو بن گئے ہیں۔ جنرل بننا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر افسری کا مزا نہیں آتا۔ پنجاب پولیس کے جرنیل انسپکٹر جنرل (آئی جی) حاجی حبیب الرحمن پولیس کو عوامی اور فلاحی ادارہ بنانے کی لگن رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر بھی اپنے آپ کو میڈیکل افسر کہتے ہیں۔ جس ڈاکٹر کی ڈیوٹی میڈیکلولیگل کیسز میں لگتی ہے وہ پولیس افسران سے زیادہ افسری کرتے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ یہ ایف آئی آر سے کم نہیں ہوتی اور اس کے لئے رشوت اسی طرح چلتی ہے جس طرح تھانوں میں چلتی ہے۔ واقعہ گوجرانوالہ شہر میں ہوا مگر میڈیکل رپورٹ گکھڑ سے جاری ہوئی۔ کوئی زخمی پانچ گھنٹے اپنے زخم کی نمائش میں لگا رہا۔ گوجرانوالہ شہر میں جھگڑے کے لئے گکھڑ سے میڈیکل رپورٹ قانوناً غلط ہے۔ گکھڑ کے ڈاکٹر کے خلاف کیس رجسٹر کرایا جا رہا ہے۔ اب ایک میڈیکل بورڈ بنایا جا رہا ہے جو تمام معاملے کی ازسر نو جانچ پڑتال کرکے رپورٹ جاری کرے گا۔ یہ بھاری ذمہ داری کا کام ہے۔ ایک ڈاکٹر کو پولیس افسر نہیں بن جانا چاہئے۔ سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹروں کو ہڑتال سے روکیں اور انہیں تھانیدار بننے سے بھی روکیں۔ سب لوگوں نے دیکھا کہ حاجی ٹیپو اور اس کے بھائی کے پاس کوئی اسلحہ نہ تھا تو پھر کس اسلحے سے انسپکٹر صاحب کے بیٹے نے خود کو زخمی کیا۔ یہ اسلحہ بھی یقیناً ناجائز اسلحہ ہو گا۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ حکمران کا بیٹا اس سے بڑا حکمران بن جاتا ہے تو پھر افسران اور پولیس افسران کے بیٹے بھی افسران بلکہ افسران تہ و بالا بن جاتے ہیں۔ یہ ریاستی غنڈہ گردی ہے اور اب غنڈہ گردی دہشت گردی سے آگے نکل گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انتہا پسندی کے لئے صرف مذہبی انتہا پسندی کو سامنے لایا جاتا ہے۔ معاشی انتہا پسندی ہے، سیاسی اور سرکاری انتہا پسندی بھی ہے جس نے شریف لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ آخر میں خادم پنجاب شہباز شریف سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں خصوصی توجہ فرمائیں۔
گوجرانوالہ میں سرکاری بیٹے کا راج
Nov 03, 2012