نوازشرےف نے لندن مےں اہم حکومتی ارکان سے ملاقاتوں اور مےڈےا سے بات چےت کرتے ہوئے اےک بار پھر مسئلہ کشمےر کے حل کےلئے امرےکہ اور برطانےہ سے کہا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے مےں اپنا کردار ادا کرےں۔ اس مےں کوئی شک نہےںکہ جب تک دونوں ملکوں مےں مقابلے بازی کا رجحان جاری رہے گا اور اسلحے کی دوڑ لگی رہے گی اس وقت تک عوام کی فلاح وبہود کے کسی منصوبے کو شروع کرنا ممکن نہےں ہو سکے گا۔ اس تناظر مےں نوازشرےف کا ےہ خےال بالکل درست ہے کہ دونوں ملکوں کی ترقی کا انحصار باہمی تنازعات کے حل مےں پوشےدہ ہے ۔تارےخی تناظر مےں دےکھا جائے تو اس مسئلے کو پےدا کرنے مےں خود برطانےہ کا ہاتھ صاف دکھائی دےتا ہے۔ اگر انگرےز نےک نےت ہوتے اور برصغےر کی تقسےم مےں شفافےت سے کام لےتے تو ےہ مسئلہ پےدا ہی نہ ہوتا۔ مگر تارےخ اس بات کی گواہی دےتی ہے کہ رےڈ کلف کمےشن اےوارڈ نے بدنےتی سے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثرےت تھی مثلاََ بٹالہ، پٹھان کوٹ اور گورداسپور کو بھارت کا حصہ بنادےا۔ وہیں سے انڈےا کو مقبوضہ کشمےر پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح بجاطور پر کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمےر اصل مےں برطانےہ کا ہی پےدا کردہ ہے۔ اب اسی ملک سے اس مسئلے کے سلسلے مےں ثالثی کی توقع رکھنا بظاہر بے معنی دکھائی دےتا ہے۔
ہمارے حکمران سمجھتے ہےں کہ بھارت کو جب بھی مذاکرات کی دعوت دی جاتی ہے تواس پر وہ ہمےشہ ٹال مٹول سے کام لےتا ہے اور اگر وہ کسی طرح مذاکرات پر آمادہ ہو بھی جائے تو اس کا نتےجہ کبھی مثبت نہےں نکلتا اسی لےے تمام باہمی تنازعات پر ہونے والی بات چےت جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ حقےقت ےہ ہے کہ مسئلہ کشمےر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادےں بھارت کے نزدےک متروک ہو چکی ہےں اب تو وہ ہر وقت کشمےر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔بھار ت کے اسی غےر سنجےدہ روےے اور ہٹ دھرمی کی بنا پر مسئلہ کشمےر پر ہونے والے مذاکرات ہمےشہ بے نتےجہ چلے آرہے ہےں۔ گزشتہ 65 برس کے دوران دوطرفہ اعلیٰ سطح پر ہونے والے رابطوں کے باوجود مسئلہ کشمےر کے حل کی جانب کوئی پےشرفت نہےں ہوپائی۔
اب برطانےہ کے دورے کے موقع پر نوازشرےف نے اےک بار پھر مےڈےا سے گفتگو کے دوران بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمےر کے مسئلے پر ڈےڈ لاک برقرار رکھنے کی مذموم کوششوں کی طرف عالمی مےڈےا کی توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم 65 سال مےں باہمی طور پر اس مسئلے کا کو حل تلاش نہےں کر سکے تو اب بھارت کی جانب سے ےہ کہنا کہ ثالثی کے لئے کسی تےسرے فرےق کی کوئی ضرورت نہےں مسئلہ کو ٹالنے کی کوشش ہے، بھارت کو ثالثی مےں کےا ہچکچاہٹ ہے؟۔ مسئلہ کشمےر کا اےسا پائےدار حل نکالا جانا چاہےے جس پر کشمےری عوام، پاکستان اور بھارت سمےت تےنوں فرےق آمادہ ہوں ۔ بعض بھارتی حکومتی ارکان بھی اس حقےقت کا شعور رکھتے ہوئے کئی بار ےہ کہہ چکے ہےں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہےں، بات چےت کے ذرےعے ہی باہمی تنازعات کا پائےدار حل تلاش کےا جاسکتا ہے۔ جب دونوں جانب کے لوگ بخوبی جانتے ہےں کہ انھےں بالآخر مذاکرات کا رستہ اختےار کرنا پڑے گا تو پھر اس مسئلے کو حل کرنے کےلئے انھےں عملی اقدامات کی جانب پےش قدمی کرنے کے سلسلے مےں کون سی رکاوٹ ان کے درمےان حائل ہے۔
ہمارے خےال مےں بھارت کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکار نہےں ہے بلکہ اُس کے روےے کو ہٹ دھرمی کہنا زےادہ بہتر ہو گا۔ جب بھی پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمےر کے حل کے لےے ثالثی کی بات کی جاتی ہے تو اس پر بھارت ےہ مﺅقف اختےار کر لےتا ہے کہ ثالثی کی پےش کش کو قبول کرنے سے تاشقند معاہدہ کی خلاف ورزی ہو گی۔ جو اسے ہرگز قبول نہےں۔ گوےا تاشقند معاہدہ بھارت کے لئے کسی مقدس دستاوےز کی حےثےت رکھتا ہے۔ جس خلاف ورزی کسی صورت مےں اسے گوارا نہےںہے۔
بھارتی حکمرانوں کی ےادداشت کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انھےں ےاد دلانا ہوگا کہ جب مجاہدےن نے کشمےر کی آزادی کے لےے سری نگر پر چڑھائی کر دی تھی تو سب سے پہلے بھارت ہی بھاگا بھاگا تےسرے فرےق ےعنی اقوام متحدہ کے پاس گےا تھا اور اسے ثالثی پر مجبور کےا تھا۔ اسی تےسرے فرےق کی مداخلت پر ہی سےزفائر کےا گےا تھا۔ اس وقت ےہ تےسرا فرےق بھارت کےلئے تو سودمند ثابت ہوا لےکن ہمارے حکمرانوں کو اندازہ نہےں تھا کہ ےہ تےسرا فرےق بعد مےں ہمارے کسی کام نہےں آسکے گا اور آنے والے دور مےں امرےکہ کا اےک ذےلی ادارہ بن کر رہ جائے گا۔ اسی لےے اب ہمےں اپنے لےے تےسرا فرےق تلاش کرنا پڑ رہا ہے اس سلسلے مےں کبھی ہم امرےکہ سے کہتے ہےں اور کبھی ثالثی کی درخواست برطانےہ کے سامنے پےش کرتے ہےں۔
نوازشرےف نے ملکی مسائل کے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم نے بہت پےسہ غےر ضروری سازو سامان پر خرچ کر ڈالا ہے اگر ےہی رقم تعلےم، صحت اور سماجی شعبوں پر لگائی جاتی تو آج ہم کہےں اور ہوتے“۔ اس بات مےں کوئی شک نہےں کہ کسی بھی ملک کی ترقی مےں تعلےم، صحت اور سماجی شعبوں کو بنےادی اہمےت حاصل ہوتی ہے۔ اگر ےہ ان مےں سے کوئی شعبہ بھی کمزور ہو تو کوئی بھی ملک ترقی کے ہداف حاصل نہےں کر سکتا۔ موجودہ بجٹ کا جائزہ لےا جائے تو معلوم ہوگا کہ تعلےم اور صحت پر خرچ کی جانے والی رقم کی مقدار ضرورت کی نسبت بہت کم ہے۔
دوسرے لفظوں مےں کہا جا سکتا ہے کہ نوازشرےف پاک بھارت کے درمےان قےائم امن کو دونوں ملکوں کی ترقی کےلئے اہم قرا دے رہے ہےں۔ اس کے ساتھ ہی نوازشرےف کو اس حقےقت کو بھی پےش نظر رکھنا ہوگا کہ بھارت ، پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہش مند تو رہتا ہے لےکن اپنی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے پےچھے ہٹنے کو کبھی تےار نہےں ہوتا۔ دوسری جانب ہمارے حکمران شروع دن سے ہی بھارت کے ساتھ دوستانہ اور برادارانہ تعلقات استوار کرنے کی پالےسی پر عمل پےرا رہتے ہےں ےہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے عالمی سطح پر کےے جانیوالے پروپیگنڈے کے باوجود ہمارے حکمران اسکے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہاں رہتے ہےں اور بھارت کو اپنی تجارتی منڈےوں تک رسائی بھی فراہم کرتے ہےں اور اسے پسندےدہ ملک کا درجہ دےنے کا فےصلہ بھی کرتے ہےں لےکن بعد مےں بھارت کی ہٹ دھری ہمےں اپنا فےصلہ واپس لےنے پر مجبور کر دےتی ہے۔اب بھارت کو اس حقےقت کا ادارک کر لےنا چاہےے کہ جنوبی اےشےائی خطے مےں طاقت کا توازن قائم رکھنے کےلئے دونوں اےٹمی طاقتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور دنوںممالک اس ذمہ داری کو اسی صورت احسن طرےقے سے نبھاسکےں گے جب انکے درمےان سفارتی اور سےاسی رابط مےں بہتر ی آئیگی لےکن اس سطح پر قرےب آنے کےلئے دونوں ملکوں کے درمےان پائے جانیوالے باہمی تنازعات کا حل ہونا ضروری ہے۔ بھارت کو اب حالات کی نزاکت کو بھانپنا ہوگا اور اپنی عوام کی حالت زار پر رحم کرنا چاہےے جن کی اکثرےت خطِ غرےب سے نےچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔