اسلام آباد (جاوید صدیق) تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود اور ان کے ساتھیوں کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد وزیر داخلہ چودھری نثار نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی۔ وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی گئی ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے امریکی سفارت خانہ کے ترجمان سے امریکی ردعمل جاننے کی کوشش کی لیکن امریکی سفارت کار ردعمل دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گزشتہ دس برس میں کئی مرتبہ کشیدگی اور تلخی پیدا ہوتی رہی ہے۔ امریکہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرے لیکن پاکستان نے یہ امریکی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جس کے بعد امریکہ نے شمالی وزیرستان پر ڈرون حملے بڑھا دیئے۔ امریکی سی آئی اے کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دو پاکستانی نوجوانوں کے قتل کے بعد بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ افغانستان میں موجود بین الاقوامی اتحادی فوج کی طرف سے سلالہ میں پاکستان کی فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کے بعد تو پاکستان نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے زمینی راستوں سے افغانستان کے لئے سپلائی چھ ماہ تک بند رکھی جس سے پاک امریکہ تعلقات سخت مشکلات کا شکار ہوئے اور اب ڈرون حملوں اور خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر حکیم اﷲ محسود کے گھر پر حملہ کر کے اسے ہلاک کرنے کے بعد پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھ رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہونے کا امکان ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد جو اجلاس ہو گا اس میں امریکہ کیساتھ مستقبل کے تعلقات کا جائزہ لینے کے بعد کوئی اہم فیصلہ کیا جائے گا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔