ویمن ہاکی کے کوچ نے 50 سیکنڈ میں 85 گیندوں کو سکوپ کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا !
مشتری ہوشیار باش! محکمہ کھیل فوری توجہ فرمائے اور شاکر علی کو مردانہ ہاکی ٹیم کا کوچ مقرر کر دے شاید اس طرح ہی ہماری ہاکی ٹیم میں کچھ مردانگی در آئے اور وہ عالمی مقابلوں میں مردانہ وار کھیل پیش کرے ورنہ عالمی مقابلوں میں ہمارے ہاکی کے کھلاڑی جس قسم کا کھیل پیش کرتے ہیں ‘ اس سے ہزار درجہ بہتر کھیل ہماری زنانہ ہاکی ٹیم عالمی سطح کے میچوں میں پیش کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے حصے آنے والے وہ تمام اعزازت جو کبھی ہماری ہاکی ٹیم کے سینے پر سجے ہوئے تھے آہستہ آہستہ دوسری ٹیموں کے سینوں پر آویزاں نظر آ رہے ہیں اور ہمارا سینہ بھی ہمارے دامن کی طرح خالی نظر آتا ہے اور بقول شاعر ....
انشا جی اُٹھو اب ”کوچ“ کرو
اس ”کھیل“ میں جی کا لگانا کیا
اب اگر خوش قسمتی سے ہمیں ایک عالمی ریکارڈ بنانے والا ملکی کوچ دستیاب ہو بھی گیا ہے تو اس کے ہُنر کو ضائع کرنے کی بجائے پاکستان ہاکی فیڈریشن فوری طور پر اس کو مردوں کی ہاکی ٹیم کی تربیت کیلئے منتخب کریں تاکہ ہاکی کے مردانہ مقابلوں میں ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل ہو سکے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب آج بیرون ملک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوتوں پر دعوتیں دئیے جا رہے ہیں اسے دیکھ کر تو یہ محسوس ہوتا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہایت منافع بخش ہے اور یہاں سرمایہ کاری کرنیوالے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں امن و امان، مہنگائی اور کرپشن کی جو صورتحال ہے اس میں تو ہمارے اپنے سرمایہ کار یہاں سے دامن چھوڑ کر سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان حالات میں بھلا کون سر پھرا یا عقل کا اندھا ہمارے ہاں آ کر سرمایہ کاری کریگا۔ ان حالات میں تو ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں .... ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“
خدارا پہلے اپنے سرمایہ کاروں کو انکی سرمایہ کاری کو تحفظ دیں پھر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت بھی دیں تو اچھا لگے گا ورنہ اگر کوئی ہم سے ہمارے اپنے سرمایہ کاروں کی وطن سے ہجرت کا سبب پوچھے تو ہم کیا جواب دیں گے۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی جواب ہے اگر نہیں تو پھر دوسروں کے سامنے دامن پھیلانے سے کیا فائدہ۔ انشا جی نے کیا خوب کہا تھا ....
جس جھولی میں سو چھید ہوئے
اس جھولی کا پھیلانا کیا ....
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن جماعتی ہونگے، الیکشن کمیشن نے اخراجات کی حد 30 ہزار روپے مقرر کر دی !
معلوم نہیں یہ بلدیاتی الیکشن کے اخراجات کی حد مقرر کی گئی ہے یا گُڈی گُڈے کی شادی کا خرچہ درج کیا گیا ہے۔ ہمارے الیکشن کمیشن کے کرتا دھرتا اگر اسی دھرتی پر رہتے ہیں جہاں ہم رہتے بستے ہیں تو انہیں بخوبی علم ہو گا کہ 3 لاکھ روپے جیب میں رکھنے والا لکھ پتی بھی بلدیاتی الیکشن میں خرچ ہونے والی چائے کی پتی کا بل ادا نہیں کر سکتا وہ بھلا الیکشن کیسے لڑے گا، یہ 30 ہزار تو نِرا مذاق ہے۔ اس وقت جو انتخابی اخراجات ہوتے ہیں اس حساب سے تو یہ رقم بہت تھوڑی ہے ہم بلدیاتی الیکشن لڑنے والے افراد کی طرف سے الیکشن کمشن کے حضور ملتمس ہیں کہ اسکی مد میں اضافہ کیا جائے ورنہ یہ بات تو عیاں ہے کہ اس سے پہلے اخراجات کے معاملے میں الیکشن کمیشن کے احکامات پر کس نے عمل کیا ہے جو اب کوئی عمل کرے گا لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ وہ ایسے احکامات جاری ہی نہ کرے جو جگ ہنسائی کا موجب بنیں اور جن پر کوئی عمل بھی نہ کرے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پنجاب میں ڈینگی وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 8 ہو گئی !
موسم سرما کے شروع ہوتے ہی عوام کا بچا کھچا خون چوسنے والی مخلوق یعنی مچھروں کی افزائش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے اس خونی مخلوق میں از قبیل ”ڈینگی“ دھاری دار شیر جیسے مچھر نے آفت مچا رکھی ہے اسکے سامنے تو ہمارے مسلم لیگ کے انتخابی نشان شیر کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی وہ بھی لگتا ہے کہیں سہم کر دُم دبا کر بیٹھ گیا ہے۔ ڈینگی پھیلانے والے مچھر کو ”ٹائیگر مچھر“ کہتے ہیں اب یہ ہمارے عوام کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے جس جماعت کو حکمرانی کیلئے منتخب کیا اس کا انتخابی نشان بھی ”ٹائیگر“ ہے اور جو مچھر ان بھوکے پیٹ غربت کے مارے لوگوں کو مار رہا ہے اس کا نام بھی ”ٹائیگر“ ہے یوں پوری قوم ان دو شیروں کے درمیان مرغی بنی حرام موت مر رہی ہے۔
پچھلے برس خیریت رہی مگر اس بار جس طرح ڈینگی پھر حملہ آور ہُوا ہے اس سے تو لگتا ہے ڈینگی + بدامنی + ڈرون + مہنگائی چاروں طرف سے مل کر اس قوم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان حالات میں صرف اوپر والا ہی ہمیں بچا سکتا ہے ورنہ ....
ان ”مچھروں“ سے بچ کر اگر آ سکو تو آﺅ
میرے گھر کے راستے میں کوئی ”شیر“ بھی نہیں ہے
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بھارت کا امرتسر جیل میں پیدا ہونیوالی پاکستانی بچی کو رہا کرنے سے انکار !
ایک ہم ہیں کہ بھارت کے پکڑے ہوئے دہشت گردوں کو بھی رہا کرتے ہوئے ذرا بھی پشیمان یا پریشان نہیں ہوتے اور دوسری طرف ہمارا پڑوسی بھارت ہے کہ اسکی جیلوں میں بند جو پاکستانی صاحبِ اولاد ہو گئے ہیں انکی اولاد کو بھی پاکستان کے سپرد کرنے سے انکاری ہے۔ ہم وفا پہ وفا کئے جا رہے ہیں اور جواب میں بھارت جفا پر جفا کئے جا رہا ہے اور ہم دوستی اور امن کی آشا کے نام پر اپنے عوام کے ساتھ دغا پہ دغا کئے جا رہے ہیں وہ ہماری ایک تتلی ہمارے حوالے کرنے پر تیار نہیں اور ہم بھارت کے پکڑے جانیوالے کئی مگرمچھوں کو جال کاٹ کر واپس انکے سپرد کر دیتے ہیں۔
ہماری وہ تنظیمیں جو امن اور دوستی کے راگ الاپتی ہیں ‘اس مسئلہ پر آواز بلند کریں تاکہ ہمارے وطن کی یہ تتلی اپنے گلستان کی آزاد فضاﺅں میں آ کر سانس لے سکے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭