استاد اور شاگرد کے قدیمی تعزیے

 سلیم ناز
ملتان میں تعزیہ داری کی تاریخ بہت قدیم ہے لکھن¶ کے بعد ملتان واحد شہر ہے جہاں یوم عاشور پر ایک سو سے زائد تعزیوں کے ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں ان سب تعزیوں میں بناوٹ اور تاریخی لحاظ سے استاد اور شاگرد کے تعزیے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ امیر تیمور کے دور میں شروع ہونے والی تعزیہ داری اپنی تاریخی روایات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ آغاز میں کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا تھا ماتمی جلوس امام بارگاہوں تک محدود تھے۔ رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں لکڑی‘ کاغذ اور دیگر اشیاءاستعمال ہونے لگیں۔ انگریز دور میں ہندو¶ں کی جانب سے اس روایت کی مخالفت کی گئی تو شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ انگریز حکومت نے 1845ءمیں تعزیوں کے لائسنس کے اجراءکے ساتھ ساتھ باقاعدہ روٹس متعین اور جلوس کے آغاز اور اختتام کے وقت مقرر کئے ۔
یوم عاشور کی صبح کا آغاز فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد قرآن خوانی اور ملکی استحکام کے لئے خصوصی دعا¶ں سے ہوتا ہے۔ بعدازاں امام بارگاہوں سے ماتمی جلوسوں کا آغاز ہوتا ہے۔ملتان اور گردونواح سے ایک سو سے زائد امام بارگاہوں سے تعزیوں کے جو ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں ان میں ممتاز آباد‘ کڑی دا¶د خان‘ کوڑے شاہ‘ آستانہ آغا پورہ‘ محلہ ماتم واہ‘ امام بارگاہ جعفریہ محلہ باغ بیگی‘ آستانہ بہادر شاہ‘ امام بارگاہ قاضی جلال‘ آستانہ عظیم شاہ‘ آستانہ تجل شاہ‘ آستانہ کیڑی پٹولیاں‘ آستانہ ابراہیم شاہ‘ انجمن یادگار حسینی بوہڑ گیٹ معروف نام حویلی مرید شام‘ امام بارگاہ شاہ گردیز‘ امام بارگاہ حیدیرہ گلگشت‘ آستانہ جان محمد‘ آستانہ گلی ولایت شاہ‘ دیوان خانہ روڈ‘ کربلا شاہ شمس (دربار شاہ شمس)‘ آستانہ فضل شاہ‘ سورج میانی‘ سوتری وٹ‘ امام باگاہ کوٹ قاسم‘ امام بارگاہ شیر شاہ‘ خلاصی لائن‘ کالے منڈی‘ جالی موسیٰ والا‘ محلہ قصاب پورہ‘آستانہ کاشی گراں نیو ملتان‘ چوک غازی آباد‘ آستانہ بھیڈی پوتراں‘ تھلہ سادات‘ محلہ آغا پورہ‘ محلہ جھک‘ محلہ جوادیہ‘ آستانہ بی بی پاک دامن‘ دائرہ بستی عبداﷲ والا تعزیہ‘ درکھاناں والا تعزیہ‘ اصغر علی والا تعزیہ‘ کمنگراں والا ‘ لعل کرتی ملتان کینٹ‘ قاسم بلہ ملتان کینٹ‘ حضرت لعل شاہ ‘ کوڑے شاہ او دیگر شامل ہیں۔
ہر تعزیہ ملتان دستکاری کا خوبصورت نمونہ ہے لیکن استاد اور شاگرد کے تعزیے تعزیہ داری کی تاریخ میں خاص مقام رکھتے ہیں۔کسی دور میں تعزیہ سازی میں چنیوٹ خاصا مشہور تھا یہاں کے چوب کار زیارتیں تیار کرتے تھے استاد پیر بخش اور شاگرد محکم الدین کا رشتہ بھی اسی کام کے دوران پختہ ہوا دونوں صاحبان زیارتیں تیار کرتے تھے اس وقت استاد کے تعزیہ کے لائسنسدار خلیفہ الطاف حسین ہیں انہوں نے بتایا ہمارا پہلا تعزیہ 1825ءمیں تیار ہوا اس کے پہلے لائسنسدار محمد ماہی تھے۔ کچھ عرصہ بعد میرے بعد میرے نانا کے سسر استاد پیر بخش اس کے لائسنسدار مقرر ہوئے۔ ان کے بعد حافظ نور محمد (میرے ناناجی) اور حاجی محمد اسلم (ماموں) کے نام لائسنس منتقل ہوا اور آج کل یہ ذمہ داری میں نبھا رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا بناوٹ کے لحاظ سے اس تعزیہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف اوپر والی منزل کے جھروکوں کو نئے انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ استاد کے تعزیے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا685ءمیں مدو خان نامی ایک شخص حج پر گیا اسے امام حسینؓ کے روضہ پر بشارت ہوئی کہ واپس جا کر عزاداری کا آغاز کرو۔ اس نے یہاں آکر علم اور ذوالجناح کا جلوس نکالنا شروع کیا۔ 1210ءمیں اس کا خاندان کا کوئی فرد باقی نہ رہا تو محلے داروں نے تعزیے کی زیارت بنا کر اس روایت کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے بتایا اس کے تعزیے کی اونچائی 27 فٹ اور چوڑائی 8 فٹ ہے۔ اس کی سات منزلیں 35 حصوں پر مشتمل ہیں۔ اسے 50 آدمی مل کر بانسوں کی مدد سے اٹھاتے ہیں۔
شاگرد کے تعزیے کے موجودہ لائسنسدار رئیس الدین ہیں۔انہوں نے بتایا تعزیہ کی موجودہ زیارت تیسری مرتبہ بنائی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ شاگرد محکم الدین نے تیار کی جو بوسیدہ ہو گئی تو استاد علی احمد نے دوسری زیارت تیار کی وہ 1943 میں آگ لگنے سے خاکستر ہو گئی تو اس کا تیسرا اور موجودہ تعزیہ استاد عنایت چنیوٹی نے تیار کیا۔ پہلے دو تعزیے دستکاروں نے تیار کئے جبکہ موجودہ تعزیہ کی تیاری میں مشینی کام کا بہت عمل دخل ہے۔ رئیس الدین نے بتایا شاگرد کا تعزیہ کی اونچائی تقریباً 25 فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہے۔ اس تعزیے کو ایک سو کے قریب عزادار مل کر اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا اس کے پہلے لائسنس دار استاد خدا بخش‘ دوسرے بھی خدا بخش تیسرے غلام شبیر‘ چوتھے غلام محبوب اور پانچویں موجودہ لائسنس دار رئیس الدین ہیں۔ انہوں نے کہا انتظامیہ لائسنس خود بخود کسی دوسرے شخص کو منتقل نہیں کرتی۔ برادری متفقہ فیصلے بعد لائسنس منتقلی کی درخواست دیتی ہے اس کے بعد نئے شخص کو لائسنس کا اجراءکیا جاتا ہے۔
تعزیوں کا وزن بھاری اور اونچائی زیادہ ہونے کے باعث استاد اور شاگرد کے تعزیے حرم گیٹ چوک پر اپنے ماتمی جلوس کا اختتام کرتے ہیں اس سے قبل ان کے جلوس شاہ رسال روڈجا کر ختم ہوتے تھے۔ شاگردکا تعزیہ 9 محرم کو النگ خونی برج پر امام بارگاہ کے باہر زیارت کے لئے رکھ دیا جاتا ہے جبکہ استادکا تعزیہ یوم عاشور کی صبح پاک گیٹ النگ پر پہنچتا ہے۔ اس کی امام بارگاہ بھی اندرون پاک گیٹ ہے۔
ماتمی جلوسوں اور تعزیوں کا ملتان میں سب سے بڑا اجتماع چوک حرم گیٹ پر ہوتا ہے جہاں ایک بجے دن سب سے پہلے بھیڈی پوترا کا تعزیہ پہنچتا ہے اس کے بعد استاد اور شاگرد کے تعزیے لائے جاتے ہیں۔ خونی برج سے چوک حرم گیٹ تک 18 مختلف تعزیوں کے جلوس اکٹھے ہو کر ایک مرکزی جلوس کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ تعزیے باری باری حرم گیٹ چوک پر لائے جاتے ہیں جہاں پر زیارت کے بعد تعزیوں کا جلوس شاہ رسال روڈ سے ہوتا ہوا بی بی پاک دامن پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس طرح دوسرا بڑا اجتماع چوک دولت گیٹ پر ہوتا ہے۔ اصلاح بزم کمیٹی کے زیر اہتمام چوک دولت گیٹ پر تلواروں کا ماتم ہوتا ہے۔ ملتان کا قدیمی تعزیہ امار بارگاہ لعل شاہ سے برآمد ہو کر کچہری روڈ گھنٹہ گھر اور خانیوال اڈا کی طرف سے ہوتا ہوا کربلا شاہ شمس اختتام پذیر ہوتا ہے۔ سورج میانی سے نکلنے والے تعزیوں کے جلوس مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے واپس اپنی امام بارگاہوں میں اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ امام بارگاہ سوتری وٹ سے نکلنے والا جلوس حسن پروانہ روڈ سے ہوتا ہوا ایم ڈی اے چوک کے راستے سورج میانی پہنچتا ہے۔ امام بارگاہ جھک سے نکلنے والا جلوس مسجد ولی پھوٹ ہٹ‘ لکڑی منڈی کے راستے امام بارگاہ معصومین پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ملتان میں خواتین بھی یوم عاشور کے ماتمی جلوسوں میں شامل ہوتی ہیں۔ خواتین کا ایک جلوس امام بارگاہ لعل شاہ سے بڑے ماتمی جلوس کے ہمراہ چوک گھنٹہ گھر پہنچتا ہے۔ امام بارگاہ عبداللہ شاہ لودھی پورہ سے خواتین کا جلوس نشاط روڈ سے ہو کر کربلا شیدی لعل پر ختم ہوتا ہے۔
مقررہ مقامات پر عزادار رسومات کی ادائیگی کرتے ہیں اس کے بعد تعزیوں کے جلوس امام بارگہوں کی طرف واپس آتے ہیں۔ استاد کا تعزیہ امام بارگاہ انرون پاک گیٹ اور شاگرد کا تعزیہ امام بارگاہ خونی برج النگ میں پہنچتا ہے جہاں شام غریباں مناتے ہوئے مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔
تعزیوں کی بناوٹ میں چوب کاری کا فن نمایاں نظر آتا ہے جو خاصا محنت طلب ہے۔ دستکاروں نے نفاست‘ مہارت اور مذہبی عقیدت کے ساتھ لکڑی کے کٹ ورک سے شاہکار زیارتیں تخلیق کی ہیں۔ تعزیوں کو بغور دیکھیں تو اس کی ہر منزل‘ ہر کونہ اور گوشہ محرابوں‘ کھڑکیوں‘ کبڑوں اور آرائشی میٹریل سے مزین ہوتا ہے۔ نقش کاری‘ مینا کاری‘ شیشہ کاری میں اتنی مہارت دکھائی گئی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کی شبیہ کے طور پر سجائے گئے یہ استاد اور شاگرد کے تعزیے دستکاروں کی جادوئی انگلیوں کا کمال ہیں جن میں مذہبی عقیدت اور محنت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن