جماعت اسلامی کا دکھڑا

پاکستان کی جماعت اسلامی سخت مشکل میں ہے۔ اس لئے کہ بھارت میں بھی جماعت اسلامی موجود ہے، بنگلہ دیش میں بھی یہ کام کر رہی ہے، آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں بھی یہ سرگرم عمل ہے اور مصر میں اخوان المسلمین کو وہ اپنی بنیاد تصور کرتی ہے، سوڈان اور چند دیگر افریقی ممالک میں بھی بعض مذہبی گروپوں سے اس کی ذہنی قربت ہے اور اب اس کی نظریں ترکی پر بھی مرکوز ہیں جہاں کی مذہبی قوتوں کا لیڈر ان دنوں امریکہ میںمقیم ہے۔ اس قدر وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے منصورہ میں بیٹھے ہوئے امیر جماعت اسلامی کی سر دردی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مگر جو قیامت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت پر ٹوٹ پڑی ہے، اس کا دُکھڑا برداشت سے باہر ہے۔ وہاں ملا عبدالقادر کو پھانسی دے دی گئی، پروفیسرغلام اعظم جیل میں انتقال کر گئے اور اب مطیع الرحمن نظامی کو سزا سنا دی گئی۔ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ جماعت کو ملکوں ملکوں جن قیامتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،ان کے مقابل وہ یکہ و تنہا ہے اور اس تنہائی کی وجہ خود جماعت کا اپنا رویہ ہے۔
جماعت کے بانی مولانا مودودی تھے مگر ان کی وفات کے بعد جماعت نے ان سے ناطہ توڑ لیا۔ اچھرہ لاہور کا ذیلدار پارک جہاںعشروں تک جماعت کا ہیڈ کوارٹر قائم رہا۔ وہاں اب صرف مولانا مودودی کی قبر باقی رہ گئی ہے اور جماعت اپنا ہیڈ کوارٹر منصورہ منتقل کر چکی ہے۔ ہیڈ کوارٹرکی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی فکری میراث سے بھی جماعت نے بتدریج کنارہ کشی اختیار کر لی۔ میاں طفیل محمد اپنے مزاج کے آدمی تھے۔ انہوںنے یحی خان کے بنائے ہوئے آئین کو عین اسلامی قرار دیا مگر اس آئین کو دن کی روشنی نصیب نہ ہو سکی۔ اسی دور میں جماعت نے البدر اور الشمس تشکیل دے کر مکتی باہنی کے خلاف جہاد کیا اور پاک فوج کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں۔ یہی قربانیاں آج اس کےخلاف چارج شیٹ بن گئی ہیں اور ان گناہوں کی سزا بنگلہ دیش کی جماعتی قیادت بھگت رہی ہے۔
قاضی حسین احمد جہادی جذبوں سے لبریز شخصیت تھے، انہوںنے جنرل ضیا اور جنرل اختر عبدالرحمن کے ساتھ مل کر آئی ایس آئی کے منظم کردہ جہاد افغانستان میں حصہ لیا۔ انہیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ جہاد اصل میں تو امریکی سی آئی اے کا منظم کردہ ہے۔ یہی وہ دور ہے جب جماعت کے نوجوانوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھی جانیں قربان کیں۔
منور حسن نے جماعت کی قیادت سنبھالی تو فکر و عمل میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی واقع ہو گئی۔ جو جماعت کئی عشروں سے پاک فوج کی حلیف تھی، یکایک اس کے مقابل آن کھڑی ہوئی۔ منور حسن نے پاک فوج کی وار آن ٹیرر پالیسی کی سخت مخالفت کی اور اس میں جانیں قربان کرنے والے فوجیوں کو شہید ماننے سے انکار کر دیا، ان کے بیا نات پر جماعت اور فوج میں ٹھن گئی، فوج نے جماعت سے معافی کا مطالبہ کیا، جماعت نے الٹا وزیراعظم سے فوج کی شکایت کر دی کہ وہ سیاست میں حصہ لے رہی ہے اس لئے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ دلیری صرف جماعت ہی نے نہیں دکھائی، بعد میں ایک ٹی وی چینل نے بھی جماعت کی تقلید کرتے ہوئے فوج سے معافی نامے کا مطالبہ کیا اور اربوں روپے ہرجانے کا نوٹس بھی دے دیا۔
جو لوگ بھول چکے تھے کہ جماعت نے قیام پاکستان کے لئے قائد اعظم کی رہنمائی میں چلنے والی عظیم اور مقدس تحریک کی مخالفت کی تھی اور جو لوگ یہ بھی بھول چکے تھے کہ جماعت کے لیڈر مولانا مودودی نے جہاد کشمیر کی مخالفت کی تھی، ان کے دل و دماغ کو لگنے والے زخم ہرے ہو گئے اور منور حسن اور ان کے بعد سراج الحق کی جماعت ا سلامی سے وہ دلبرداشتہ ہو گئے۔ جماعت کی قیادت نے جس طرح دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا سے بچانے کے لئے مذاکرات کے نام پر ڈرامہ کیا رچایا، اس نے جماعت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی۔ اسی لئے آج جب بنگلہ دیش میں کبھی مُلا عبدالقادر کو پھانسی دی جاتی ہے، کبھی پروفیسر غلام اعظم جیل کی کال کوٹھری میں خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں یا مطیع الرحمن نظامی کو سزا سنائی جاتی ہے تو پاکستان کے عوام کی طرف سے جماعت اسلامی منصورہ کو پرسا دینے والا کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا۔
ایک زمانہ میں نے دیکھا ہے کہ جب نہر سویز کی جنگ چھڑی تو پاکستان کی دیہاتی خواتین کپڑے دھونے والے تھاپے پکڑ کر گلیوںمیں نکل آئی تھیں اور مصر کے صدر ناصر کے حق میں نعرے لگا رہی تھیں۔ مگر اسی مصر میں آج اخوان المسلمین کے منتخب وزیراعظم مرسی کا تختہ الٹا اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور اس کے سینکڑوں ساتھیوں کو موت کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں تو پاکستان میں ان پر کسی نے ردعمل کا اظہار نہیں کیا، ان پر آہ و زاری کرنے کے لئے اکیلی جماعت اسلامی رہ گئی ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی اس تنہائی پر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر کیا کیا جائے، یہ سب جماعت کا اپناکیا دھرا ہے۔ ایں ہمہ آوردہ تست!
جماعت کے ساتھ ایک اور دھرو یہ ہوا کہ سول سوسائٹی میں جو دانشور اس کے حلیف تھے، وہ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے بعد جہیز میں مسلم لیگ (ن) کو دان ہو گئے۔یہ ایک بہت بڑی کھیپ تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد ٹوٹنے کے بعد جماعت تو اس سے باہر نکل آئی مگر اس کے سارے دانش ور، ن لیگ کے خوان یغما کے کھونٹے کے ساتھ بندھے رہ گئے۔ مگر آج وہی مصر کے صدر مرسی کے لئے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، بنگلہ دیش کے ملا عبدالقادر کا نوحہ پڑھتے ہیں، پروفیسرغلام اعظم کی خدمات کو اجاگر کرتے ہیں اور مطیع الرحمن نظامی کی سزا پر احتجاجی آواز بلند کرتے ہیں مگر چونکہ ان دانشوروں کی اصل ہمدردیاں ن لیگ کے ساتھ ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ، اس لئے یہ دانشور بھی آئسولیشن کا شکار ہیں۔ دو کشتیوں کی سواری کرنے کی بنا پر ان کی آواز یا تحریر پر کوئی کان دھرنے والا نہیں۔
ایک ستم ظریفی اور بھی ہوئی۔ جماعت کے یہ دانشور چونکہ مسلم لیگ (ن) کے حلیف بن گئے ہیں ، مگر مسلم لیگ (ن) کی تحریک انصاف کے ساتھ ٹھنی ہوئی ہے،اس لئے اس امر کے باوجود کہ زیر بحث دانش وروں کے دل جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں لیکن وہ اپنی سابقہ جماعت کی سیاسی سطح پر تائید سے قاصر ہیں اور موقع بے موقع تحریک انصاف کے لتے لینے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ یہی جماعت اسلامی پشاور میں تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار ہے مگر لگتا یہ ہے کہ جماعت نے جمہوریت کی بقا اور استحکام کی آڑ میں، اندر کھاتے، ن لیگ کا ساتھ نبھانا شروع کر دیا ہے، اس لئے عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ سراج الحق کو واضح طور پر بتانا چاہئے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ اس پر جماعت کو کوئی جواب نہیں سوجھ رہا۔ دیکھنے کی بات ہے کہ یہ جماعت دو کشتیوں کے بجائے کئی کشتیوں پر سواری سے کیسے اور کب تک لطف اندوز ہو تی رہے گی۔تحریک انصاف نے بھی ٹھڈا کرا دیا تو جماعت اپنے آخری سہارے سے بھی محروم ہو جائے گی۔ جماعت کا کیا کیا دکھڑا بیان کیا جائے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...