اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیراعظم کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ خدشہ ہے کہ 2050ءتک دنیا کے کئی گلیشیئر غائب ہو جائینگے۔ سیاچن میں بھارتی فوج کی موجودگی ماحول پر بُرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی کمی ہے۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے زیراہتمام ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے حکومت پاکستان ہر سطح پر اقدامات کر رہی ہے۔ 2010ءاور 2011ءکے سیلاب اور سندھ میں خشک سالی موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر تھا۔ جس تیزی سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں اس سے مستقبل میں پانی کمیاب ہو جائے گا اور جغرافیائی مسائل پیدا ہوں گے۔ موسمی اثرات کے حوالے سے دنیا کے سب سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ پاکستان میں کاربن اخراج بہت کم ہے گرین ہاﺅس گیسز کا اخراج بھی اوسط سے بہت کم ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس مسئلے کا شکار ہیں۔ ہم بھاشا ڈیم بنانا چاہتے ہیں جس سے کوئلے اور تیل سے چلنے والے کئی بجلی گھروں کی ضرورت نہیں رہے گی اور ماحول کو فائدہ ہو گا مگر اس کے لئے ہمیں فنڈز کی ضرورت ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کےلئے 14ارب ڈالرز درکار ہیں، بھاشا ڈیم بنایا گیا تو وہ کئی ڈیموں کی ضروریات پوری کرے گا، پاکستان موسمی تبدیلیوں کا شکار بن سکتا ہے، پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے، پانی کی ضروریات اور توانائی کے لئے بھاشا ڈیم سمیت کئی ڈیموں کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھاشا ڈیم کئی ڈیموں کی ضرورت پوری کرے گا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا حصہ ہے، دنیا میں اسلامی ممالک کو زیادہ خطرات ہیں، مسلمہ امہ کے اتحاد میں کردار ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ افغانستان کے حالات کے باعث مفاہمتی عمل آگے بڑھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا، صورتحال پر تشویش ہے، افغان امن عمل کا دوبارہ آغاز ہونا چاہئے، مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کا دارومدار کابل حکومت پر ہے۔ امریکہ نے بھی مفاہمتی عمل کی حمایت کی ہے، اس کے لئے افغان حکومت اور طالبان کا متفق ہونا ضروری ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا تیسرا شکار بن سکتا ہے۔ عالمی برادری کوٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر پریشان ہیں۔ صورتحال میں بہتری کیلئے افغان حکومت اور طالبان فریق ہیں۔ پاکستان کے جوہری نظام کی مضبوطی کو پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ پاکستان کو کس قسم کے ہتھیار چاہئیں وہ پاکستان جانتا ہے۔ اس وقت زیادہ خطرہ اسلامی دنیا کو ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کے لئے پاکستان اسی وقت کردار ادا کر سکتا ہے جب اس معاملہ کے فریقین مذاکرات کے لئے متفق ہوں۔ افغانستان میں شورش چل رہی ہے۔ جب تک یہ صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو مصالحتی عمل کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی صدر کی طرف سے اگلے سال جوہری سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت سے متعلق سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ اس سلسلے کی چوتھی سربراہ کانفرنس ہوگی، اس کا فوکس نیوکلیئر سیفٹی اور موثر ایکسپورٹ کنٹرول ہے۔ پاکستان کا نیوکلیئر سیفٹی کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام بہت اچھا ہے جسے دنیا بھر میں تسلیم کیا ہے، ہم نے بڑا موثر اور بہترین نیوکلیئر ایکسپورٹ کنٹرول نظام تشکیل دیا ہے۔ ہم اسلامی دنیا کا حصہ ہیں جس کو زیادہ خطرات ہیں۔ وہ اس وقت فلیش پوائنٹ ہے، یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر دہشت گردی کے خطرات سے نمٹیں۔ ویانا مذاکرات بہت اہم ہیں۔ پوری دنیا شام کے مسائل کے حل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہم بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے دفاع کیلئے کون سے ہتھیار ضروری ہیں۔ پاکستان طالبان کیساتھ مذاکراتی عمل میں معاونت اور دوبارہ آغاز میں مدد کیلئے افغان حکومت کے جواب کا منتظر ہے۔ پاکستان خطے کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے افغان طالبان کی شدت پسندی اور جنگ میں کمی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے افغان حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان مذاکرات کیلئے یہ وقت مناسب نہیں۔ پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور سلامتی کیلئے بہت کچھ کیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کونسل کی ممبر شپ کے انتخابات میں شکست کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 120 ممالک نے کونسل میں پاکستان کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم پاکستان 105 ووٹ حاصل کر سکا اور ہار گیا۔ وزارت خارجہ اس شکست کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات کر رہا ہے ۔ دنیا بھر بالخصوص شام، عراق، لیبیا، یمن میں بسنے والے مسلمان خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مسلم نظریئے کا تحفظ امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ وفاقی سیکرٹری ماحولیات عارف احمد خان نے کہا کہ زرعی اور صنعتی انقلاب نے موسمیاتی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، دنیا کو کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہو گا ورنہ موجودہ صدی کے آخر تک دنیا کا درجہ حرارت چار سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا جس سے بہت تباہی آ سکتی ہے۔ پیرس ماحولیاتی کانفرنس کے لئے نائب خصوصی نمائندے فلپ لاگوسٹ نے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بعض ممالک خاصی نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان میں فرانس کی سفیر مارٹین ڈیورانس نے کہا کہ انہوں نے کہاکہ فرانس میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات پر کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت دو فیصد کم کرنے پر کام ہو گا۔ انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج بہت اہم ہے۔ یہ انسانیت کا فرض ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے کام کرے۔