کون سے رنگ میں اُمید کا منظر کھینچوں
ڈوبنے والے نے ہر موج کو ساحل سمجھا
ملک کے سیاسی منظر نامے میں عجب اک طرح ڈالی گئی کہ تحریک انصاف الطاف حسین والی ایم کیو ایم کو بھی مات دیتی ہوئی نظر آتی ہے‘ کبھی کبھی تو لب و لہجے اور سراپا کے اعتبار سے عمران خان ’’شعلہ بار‘‘ خطابت کرتے ہوئے سچ مچ کے الطاف حسین لگ رہے ہوتے ہیں‘ سنجیدگی نہ متانت اور نہ شائستگی کا گمان ایسا کہ اوئے جسٹس فلاں‘ اوئے نوازشریف اور دلچسپ امر یہ بھی کہ دوسروں کو ایرا غیرا نتھو خیرا سمجھنے والے خود اپنی عزت و توقیر کی طلب رکھتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے درست استفسار کیا اس ملک میں عمران خان کے علاوہ کیا کسی دوسرے کی کوئی عزت نہیں ؟ یقیناً یہ المیہ ہے اور اس کے ذمہ دار سردست الطاف حسین کے ساتھ ساتھ عمران خان بھی ہیں۔ شیخ رشید ‘ رانا ثناء اﷲ اور عابد شیر علی قبیل کے لوگ تو مضحکہ خیزی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں‘ انہیں سن کر لوگ محظوظ ہوتے ہیں لیکن عمران خان جس طرح الطاف حسین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ‘ ڈرکی بات یہ ہے کہ وہ مذکورہ لب و لہجہ اور مخاطبہ کہیں ہماری ملی شخصیات کے بارے میں بھی استعمال نہ کرنا شروع کر دیں‘ اگر ایسا ہوا تو کل ہمارا بچہ اپنے ماں باپ کو بھی اوئے کرکے بلائے گا ‘ پھر کیا کہیں گے یار لوگ کہ اگر ’’عمرانیات‘‘ کے ناشائستہ الفاظ کی لغت تیار کر لی گئی تو اس ملک کے بزرگوں اور باعث توقیر لوگوں کا کیا ہوگا؟ تاہم اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کی ’’عمرانی لغت‘‘ کا دم بھرنے والوں سے بھی تشویش کے عالم میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ تم کہاں جاؤ گے کچھ اپنا ٹھکانہ کر لو۔
عمران خان کا بھلے سیاست میں طویل تجربہ سہی لیکن ان کی خام سیاسی سوچ یہی ہے کہ وہ عملی سیاست کو کھیل سمجھتے اور اس میں وہی طریقے آزماتے ہیں جو تا زندگی کھیل کے میدان میں ان کا وطیرہ رہا۔ اب ذرا دیکھئے اگر وہ نوازشریف اور ان کی حکومت کے خلاف اپنی ’’دس لاکھ‘‘ کی ریلی کو اسلام آباد بند کرنے کا نام نہ دیتے تو انہیں نہ صرف یہ کہ خود آسانیاں میسر آتیں بلکہ وفاقی حکومت کو احتجاج روکنے میں از حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہی نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی اس ضمن میں مختلف فیصلہ دینا پڑتا۔ خیبر پختونخوا سے وزیراعلٰی پرویز خٹک کی قیادت میں آنے والے جھتے کو بھی مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ علاوہ ازیں حقیقت میں یہی ایک غلطی ہے جس کا خمیازہ پی ٹی آئی کے ہر احتجاجی کارکن اور لیڈر کو بھگتنا پڑا۔ حد یہ ہے کہ وزیراعلٰی پختونخوا پرویز خٹک کو ببانگ دہل کہنا پڑا اگر ان کی پارٹی نے اسلام آباد بند کرنے کی کوشش کی تو وہ اس میں شریک نہیں ہوں گے۔ آئینی و قانونی طور پر وہ یہ کہنے پر مجبور تھے اور یہی عمران خان کے سیاسی فلسفے اور نظریئے کی شکست ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انہوں نے عملی سیاست میں اپنے نظریئے اور سوچ کی شکست کو ملاحظہ کیا بلکہ پرویز مشرف کی حمایت سے لے کر سابق ڈی چوک کے دھرنے کے موقع پر سول نافرمانی کے اعلان سے موجودہ اسلام آباد بند کرنے کے فیصلے تک انہیں اپنی مطلق العنانی سوچ کی پسپائی مسلسل دیکھنا پڑ رہی ہے ۔ قارئین آپ سوچیں گے ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا صاف جواب یہی ہے کہ بادشاہ سلامت نوازشریف ہیں یا نہیں عمران خان عملی طور پر اس کے سو فی صد مصداق ہیں‘ جو پارٹی قیادت اور کارکنوں پر اپنی خام سیاسی سوچ مسلط کرنے کے بادشاہ سلامت ہیں۔ بات کرپشن سے چلی تھی اور پانامہ لیکس سے ہوتی ہوئی عمران خان کی سیاسی حماقتوں پر منتج ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب ان کا ایک اور بیان بھی ملک گیر عملی سیاست کے حافظے میں محفوظ ہے ‘ اور وہ یہ کہ موجودہ احتجاج اور دھرنا آخری ہے‘ اس کے بعد کوئی احتجاجی ریلی ہوگی اور نہ ہی جلسہ و جلوس ۔ یقیناً عمران خان کے منہ سے نکلنے والی باتیں بڑے لطف اور مزے کی ہوتی ہیں‘ پارلیمانی اور جمہوری اذہان رکھنے والے ان سے بہت حظ اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ؎
پاپوش پہ لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
سپریم کورٹ میں وکلاء کی حاضری کے بعد توعمران خان کی باڈی لینگویج ہی تبدیل ہوگئی۔ اسلام آباد بند کرنے کا اعلان تووہ گویا بھول ہی گئے‘ لیکن پریڈ گراؤنڈ میں اظہار تشکر کے لئے بھی وہ اپنے کارکنوں کویوں بلاتے رہے جیسے کہ وہ یہی مقصد لے کراٹھے تھے ۔بہر طوردس لاکھ لوگ لانے کا دعویٰ بھی اسی سیاسی مضحکہ خیزی کا ایک ثبوت تھا‘ درد مند لوگوں اور محب وطن پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ ابھی یہ ملک خداداد ایسے اخلاقی اور سیاسی دیوالیہ پن کا شکار نہیں ہوا کہ صریحاً پاکستان کے خلاف غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے دس لاکھ لوگ ایٹمی ملک کے دارالخلافہ کو بند کرنے کے لئے چل پڑتے۔ ہاں اگر عملی طور پر اس کا ارتکاب ہو جاتا تو نوازشریف کیا کسی بھی حکمران کو اس ملک پر حکومت کرنے کا سرے سے کوئی حق ہی نہ پہنچتا لیکن صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی ایسا ہوگا۔ یہاں آئینی اورقانونی طور پر بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ حکومت وقت کو عمران خان سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے پرامن احتجاج کو روکنے کا اختیار نہیں لیکن اسلام آباد بند کرنے کے دعویٰ کو خاک میں ملا دینے کا آئینی و قانونی اختیار ہر صاحب اقتدار کے حلف نامہ کا حصہ ہے ۔ میں نے خود پی ٹی آئی کے بعض مخلص اور درد مند رہنماؤں اور کارکنوں کو یہ کہتے سنا کہ کاش عمران خان دس لاکھ کی احتجاجی ریلی کو اسلام آباد بند کرنے کا نام نہ دیتے‘ ان کے بقول اس دعوے اور اعلان سے پارٹی لیڈر شپ اور کارکنوں کا مورال پست ہوا ہے ‘ اب جتنے بھی پش اپ لگالیں آئندہ بھی اس دعویٰ کے ساتھ وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل نہ کر سکیں گے ۔ عملی سیاسی میدان میں حماقتوں اور بے اعتدالیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا ۔ جو بھی گل کھلائے جائیں ان کے نتائج بعد ازاں بھگتنے پڑتے ہیں۔
بنظر غائر دیکھیں تو مسلم لیگ ن میں پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ مشاورت کا عمل تازگی اور توانائی کے ساتھ موجود ہے‘ اس کے شواہد بھی صبح شام ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ پرویز رشید کی وزارت اطلاعات سے وقتی طور پر سبکدوشی اور خواجہ آصف کی بیرون ملک روانگی پر پی ٹی آئی نے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن خواجہ آصف کی واپسی نے ان کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ اگرچہ پرویزرشید کے استعفیٰ کا معاملہ خاصا حساس تھا‘ جو شخص صبح شام پی ٹی آئی کی قیادت کو کھری کھری سناتا اور پھر ہر بات کا مدلل جواب دیا کرتا تھا وہ منظر سے غائب ہوا تو یہ تحریک انصاف والوں کے لئے طمانیت کی بات تھی لیکن ادھر سے رانا ثناء اﷲ ‘ عابد شیر علی اور دیگر اس خلا کو پر کرنے کے لئے متحرک ہوئے اور پھر سیاسی لش پش عود کر آئی۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پرویز رشید ایسے متحرک سیاسی لیڈر کا خاموش بیٹھ جانا بھی عملی سیاست کے لئے ایک غیر طبعی بات ہے۔ مجھ سے ایک سیاسی کارکن نے یہ کہا تو بارے اشک رام پوری یاد آگئے؎
محتسب نے جو نکالا ہمیں مے خانے سے
دور تک آنکھ ملاتے گئے پیمانے سے
ادھر وزارت سے سبکدوشی کے بعد پرویز رشید کا ایک سیاسی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اشارتاً اپنی واپسی کا عندیہ دے دیا ہے‘ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ میں ڈسپلن اور قیادت کا احترام پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ موجود ہے۔ یہ صورت حالات یوں بھی آشکارا ہوتی ہے کہ اس کے اقتدار کا ہر ذمہ دار محتاط‘ نپے تلے لہجے اور پیرائے میں بات کرتا ہے‘ پرویز خٹک کی طرح نہیں جو خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے وزیراعلٰی ہوتے ہوئے بھی محتاط زبان استعمال نہیں کرتے‘ ایک اینکر پرسن نے جب ان سے ایک سوال کیا تو انہوں نے اس کا جواب ایسے پیرائے میں دیا جو کسی صوبے کے وزیراعلٰی کو زیب نہیں دیتا۔ ایسا ہے تو اس کا مطلب صاف ظاہرہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سمیت کارکنوں کی صفوں میں ڈسپلن اور اخلاقی و سیاسی اقدار کو روا رکھنے کی صلاحیت بہت کم ہے‘ اس کے ذمہ دار ایک تو عمران خان خود ہیں جبکہ ان کے زبردست حمایتی شیخ رشید بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں افراتفری ‘ اخلاقی اقدار کا فقدان پیدا کرنے کے سزا وار ہیں۔