دہشت گردی اور نظامِ انصاف

وطنِ عزیز کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ کم یا زیادہ تو ہوتی رہتی ہے مگر ختم نہیں ہو سکی۔ اسکے کُچھ جرائم تو وہ ہیںجو معا شرے کی کمزوریوں اور ناانصافی سے جنم لیتے ہیں۔ آخر کم و بیش بائیس کروڑ لوگ بستے ہیں جن میں جائز و ناجائز اور حقوق کی پامالی رواج پا چُکی ہے۔ جس کا نتیجہ فطری ہے کہ لوگ آپس میں لڑیں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے۔ دوسرا بڑا عنصر غیر مُلکی قوتوں کی اسلام اور پاکستان دشمنی ہے۔ لہٰذا وہ معاشرے سے باغی اور اُکتائے ہوئے لوگوں کو تلاش کر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حکومتی اداروں میں سرِفہرست پاکستانی افواج، نیم فوجی ادارے اور پولیس ان سب کا خون دہشت گردی کے ناسُور کا مداوا کر رہا ہے اور بہت حد تک کامیاب ہے۔ مگر یہ ختم کیوں نہیں ہو رہی! یہ مقامِ فکر ہے کہ آخر کیوں ہزاروں جانیں نوعمر نوخیز نوجوان شرفِ شہادت پا گئے اور مسلسل شہید ہو رہے ہیں۔ تو یہ قوم کیلئے، ہر صاحبِ فکر کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
قرآن کریم اور کتابِ حکیم نے اسکا مستقل اور آخری حل قصاص یعنی نظامِ انصاف کو قرار دیا ہے کہ جب عدل ہو گا، مجرموں کو سزا ملے گی تو بے گناہ بے خطر جی سکیں گے۔
ترجمہ: اے صاحب ِ دانش لوگو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے یعنی امن ہے سکون ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف عدل مہیا کرنے سے قاصر ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ عدالت انصاف نہیں دے سکتی بلکہ اسکا اختیار صرف قانون کے مطابق انصاف دینا ہے۔ کونسا قانون؟ ہم بحمدللہ آزاد ہیں اور اسلام کے نام پر اللہ کریم نے ہمیں یہ خطہ زمین جو دنیا میں جنتِ نظیر ہے عطا فرمایا تو کیا آزادی صرف یومِِ آزادی منانا ہی ہے؟ یا اپنے نظامِِ حیات میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے؟ آزاد اور غلام کی زندگی بہت مختلف ہوتی ہے۔ آزاد اپنے شام و سحر کے انداز خود مقرر اور متعین کرتا ہے جبکہ غلام مالک کے دئیے ہوئے خاکے میں رنگ بھرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آزادی نظامِ حیات کے آزاد ہونے سے عبارت ہے۔ کیا ہم نے اپنا نظام حیات بدلہ ہے؟ خود تجویز کیا ہے کہ حقیقت میںآزاد مسلمان کیسے جیتا ہے؟ معاشرتی تعلقات کی کیا حدود و قیود ہیں؟ نظامِ تعلیم کیا ہو گا؟ نظامِ تجارت کیسے چلے گا؟ نظامِ سیاست کس طرح کام کرے گا؟ اور نظام ِ انصاف کیسے عدل بانٹے گا؟
صد افسوس کہ تمام نظام ِ حییات میں ہم غلامانہ نظام کے تحت جی رہے ہیں۔کیا وہ مائیں بانجھ ہو گئی ہیں جن کے بیٹے قوموں کی رہنمائی کرتے تھے؟ کیا علمائے حق فوت ہو گئے جو قرآن و سُنت سے شب و روز کے پروگرام بیان کرتے تھے؟ کیا وہ قانون دان گزر گئے جو نظام ِ عدل کی باریکیوں سے آگاہ ہوتے اور فراہمی عدل میں معاون ہوتے تھے؟ کیا وہ حکمران وہ سیاستدان خوابِ عدم کی نذر ہوئے جو قوموں کے مستقبل سنوارا کرتے تھے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کی سُرخروئی کی ضمانت بھی دیا کرتے تھے۔
ذرا نظام ِ انصاف پر غور فرمائیے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے 16 سال بعد اُس مظہر حسین کو بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا جو دو سال پہلے 14 سال جیل میں رہنے کے بعد راہی ملک ِ عدم ہو چکا تھا جس کے مقدمہ میں پیروی کرنے والا والد اور چچا، دونوں فوت ہو چُکے تھے۔ یقیناً اُسکی جائیداد مقدمہ کے اخراجات کی نذر ہو چکی ہو گی اولاد اور اہل ِ خانہ در بدر ہو چکے ہوں گے۔ آخر ایک بے گناہ کی ان محرومیوں کا مداوا کیا ہو گا؟ کون کرے گا؟ کب کرے گا؟
دوسرا تازہ نمونہ بہاولپور جیل کا ہے۔ غالباً 19 برس بعد ان دو بھائیوں کو عدالتِ عظمیٰ نے بے گناہ قرار دیا جن کو اُس ناکردہ جرم میں دو سال قبل پھانسی دی جا چکی ہے۔ یہ عجیب ہے کہ مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے تو بلیک وارنٹ کیسے جاری ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ یہ سارے سوال صر ف اُن کی غربت کے غبار میں دب جائیں گے للہ! اے ارباب ِ اقتدار و اختیار اس سے پہلے ان چیزوں پر غور کرو جب خود تم بھی اللہ کے حضور انصاف کیلئے پیش کئے جاؤ گے۔
اس کا حل فوجی عدالتی نظام نکالا گیا ہے لیکن یہ بھی مستقل حل نہیں ہے وقت کے تقاضوں کو ضرور پورا کرتا ہے مگر پھر اسے بھی اس غلامانہ نظام کے گورکھ دھندوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اُن کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ عدالتوں میں جا کر اسی نیم عادلانہ سُست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں نہ جائیں ضرور جائیں مگر انہیں فوری طور پر نمٹایا جائے۔ نیز سزا سے مُراد محض ایک آدمی کو سزا دینا یا دُکھ دینا یا موت کے گھاٹ اُتارنا نہیں بلکہ اُسے معاشرے کیلئے نصیحت بنانا بھی ہے۔ اسی لئے شریعتِ مطہرہ ؐ حدود پر عملدرآمد کو عوام کے روبرو کرنے کا حکم دیتی ہے۔ لہٰذا گزارش ہے کہ کم از کم دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ فوری کیا جائے اور سزاؤں پر عملدرآمد عوامی جگہوں پر، چوراہوں پر، عوام کے روبرو کیا جائے کہ دہشت گردی کو روکنے کیلئے صرف خونِ شہیداں سے کھیلنا ہی نہیں بلکہ مجرموں کا انجام بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن